کاویری تنازعہ کو ختم کرنے والا میکے داٹو کا ڈیم : تعمیر کے لئے کونسی رکاوٹیں ہیں؟ کیا ہے یہ پورا معاملہ؛ ایم ایل لکشمی کانت کی تفصیلی رپورٹ
بھٹکل11؍ جنوری (ایس اؤ نیوز) کانگریس کی جانب سےجاری ’میکے داٹو‘ نامی پیدل یاترا سیاسی الزام تراشیوں اور کاویری ندی کے پانی کو لے کر بالخصوص کر ناٹک اور تمل ناڈو کے درمیان جاری تنازعہ پر کنڑا اخبار ’’کنڑ اپربھا‘ میں ایم ایل لکشمی کانت کے آرٹیکل کا ترجمہ یہاں ساحل آن لائن کے قارئین کے لئے پیش کیاجارہاہے۔
بنگلورو سے قریب 100کلومیٹر کی دوری پر واقع’’سنگم ‘‘ نامی گاؤں ایک سیاحتی مقام ہے۔ صدرمقام کے اوپری علاقوں سے پانی لانے والی ورشبھاوتی کنک پورا کے قریب اپنی گود میں سما کر بہنے والی ارکاوتی ندی کاویری میں ضم ہونے والا مقام سنگم ہے۔ سنگم سے بیڑے پر بیٹھ کر ارکاوتی ندی کو پار کرنے کے بعد منی بس کے ذریعے گھنے جنگلات میں سے پانچ کلومیٹر کاسفر کرتےہیں تو ’میکے داٹو‘ پہنچ جاتے ہیں۔ اپنی وسعت کے ساتھ بہنے والی کاویری ندی میکے داٹو پہنچ کر بڑے بڑے پتھروں کے درمیان تنگ راہوں سے گزرتی ہے۔ ان پتھروں پر کھڑے ہوکر کاویری کے بہنے کو دیکھنا بڑا سند ر لگتاہے۔ بہت ہی حسین منظر پرُلطف ہوتا ہے۔ میکے داٹو میں سنائی پڑنے والی کاویری ندی کی لہروں کی آواز سے زیادہ ریاستی سیاست میں میکے داٹو کا ہنگامہ بہت زوروں پر ہے۔ عام طورپر کاویری ندی کا معاملہ اٹھتاہے تو کرناٹک۔ تمل ناڈو کے درمیان چلنےو الےتنازعہ کی طرف ہی دھیان جاتاہے۔ لیکن اب کی بار تمل ناڈو کچھ زیادہ ہی خاموش ہے۔ انتخابات کو 15مہینے باقی رہتے حزب مخالف کانگریس کی طرف سے جاری پیدل یاترا سے ریاست کی سیاسی پارٹیاں الزام تراشی میں مصروف ہیں۔
میکے داٹو کاڈیم کیوں ضروری ہے؟:کاویری عدالتی بورڈ کے آخری فیصلے اور سپریم کورٹ کے آرڈرکے بعدکرناٹک ہرسال 177.25 ٹی ایم سی پانی تمل ناڈو کو چھوڑتا ہے۔ بہتر مانسون یعنی اچھی بارش ہوتی ہے تو تمل ناڈو کو پانی سپلائی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، آگ اسی وقت لگتی ہے جب بارش کم ہوتی ہے۔ زیادہ بارش ہوتی ہے تو کرناٹک کے ڈیم بھر کر بقیہ پورازائد پانی تمل ناڈو کو چلا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر 2020-2021کے آبی سال (جون سے مئی تک ) پڑوسی ریاست کو کرناٹک سے 34ٹی ایم سی پانی زائد دیا گیا تھا۔ 2018-19کے آبی سال میں 227ٹی ایم سی، 2019-20آبی سال میں 98ٹی ایم سی پانی تمل ناڈو کو زائد ملا۔ اگر 4 دہوں کی شرح دیکھیں تو تمل ناڈو کو متعینہ کوٹا سے بھی 45ٹی ایم سی زائد پانی ملا ہے۔ کرناٹک کے کاویری وادی پر واقع اہم ڈیم کے آرایس، ہیماوتی، کبینی اور ہارنگی ڈیموں کا کل حجم 115ٹی ایم سی ہے۔ یہ سب بھرجانےاورتالاب وغیرہ میں پانی جمع ہونےکے بعد جو بھی پانی بچتا ہے وہ سب تمل ناڈو کا ہی پانی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیم اور آبی پیمائش مرکز کا مقام بیلی گونڈلو کے درمیان گرنے والا پانی بغیر کسی رکاوٹ کے راست تمل ناڈو کو ہی چلاجاتاہے۔ تمل ناڈو ،زائد ملنے والےپانی کی ذخیرہ اندوزی تک نہیں کرسکتا۔ اس لئے وہ پانی سمندر میں چلا جاتاہے۔اب سمندر میں جانے والے اسی پانی کی ذخیرہ اندوزی کے لئے کرناٹک چاہتا ہے کہ سنگم سے 4کلومیٹر دورنشیبی علاقےمیں 9000 کروڑروپیوں کی لاگت سے ڈیم تعمیر کی جائے۔ اسی کو میکے داٹو ڈیم کہاجاتاہے۔
قحط سالی میں ڈیم سے سہولت: کرشنا ندی کی وادی میں بہنے والی تنگ بھدرا (130ٹی ایم سی )،آلمٹی(123ٹی ایم سی )جیسے بڑے ڈیم کاویری کی وادی میں نہیں ہیں۔ کیونکہ اتنا پانی اس علاقےمیں بہتا نہیں ہے۔ اس علاقے کا سب سےبڑا ڈیم کے آرایس ، جہاں صرف49.5ٹی ایم سی پانی کاذخیرہ ہوتاہے۔ میکے داٹو کے قریب تعمیر کئےجانےوالے مجوزہ ڈیم کاحجم 67ٹی ایم سی ہے، اس کامطلب کاویری وادی کا یہ سب سےبڑا ڈیم ہوگا۔ جب زائد بار ش ہوتی ہے تو اس کاپانی اس ڈیم میں ذخیرہ کیا جاسکتاہے۔ اگر قحط کاسامنا ہواتو اسی ڈیم میں جمع شدہ پانی میں سے کوٹا کے مطابق تمل ناڈو کو بھی دیا جاسکتاہے۔ قحط سالی میں ریاست کے ڈیموں میں پانی نہیں رہتا۔ اور اس معاملے میں تمل ناڈو اگر زیادہ قانونی جدوجہد بھی کرتاہے تو زیادہ پانی ملنے کے امکانات نہیں ہیں، ایسے حالات میں متعلقہ منصوبے سے تھوڑا بہت پانی مل سکتاہے۔ اس کے علاوہ بنگلوروکو 2030کے بعد والی مانگ کے مطابق پانی دستیاب ہوگا۔ بنگلورو کےدوسرے علاقوں اور آس پاس کے اضلاع کو بھی پینے کاپانی ملے گا ۔ 400میگا واٹ بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ مجموعی طورپر یہ منصوبہ کثیر الاستعمال اور زیادہ فائدہ مند ہے۔
میکے داٹو پر تمل ناڈو کی آنکھ لال:تمل ناڈو کو خاص کر تین راہوں سے پانی ملتاہے۔ 1)۔کرشنا راج ساگر ،کنبینی ڈیموں سے چھوڑے جانےوالا پانی۔ 2) ان دونوں ڈیموں کےنشیبی علاقوں میں برسنے والی بارش کا پانی ۔3)۔ارکاوتی ، شینشا، سورنا جیسی چھوٹی ندیوں کاپانی۔
تمل ناڈو کاماننا ہے کہ بارش کے موسم میں جب تک کرشنا راج ساگر اور کنبنی ڈیم نہیں بھرجاتے تب تک پانی نہیں ملے گا۔ لیکن بقیہ دونوں جگہوں سے کرناٹک کے کسی کنڑول کے بغیر پانی تمل ناڈو پہنچ جاتاہے۔ موسم باراں کے شروع ہوتےہی تمل ناڈو کے میٹُّور ڈیم میں جمع ہونے والا پانی تمل ناڈو کی تین اہم دھان کی فصلوں میں سےایک کوروائی نامی فصل کےلئےبڑی راحت کاکام انجام دیتاہے۔ تمل ناڈو کااعتراض یہ ہےکہ جب پانی تمل ناڈو کو ملتا ہے اسی پانی کو روکنے کےلئے کرناٹک میکے داٹو ڈیم کی تعمیر کے ذریعے روکنا چاہتاہے۔تمل ناڈو حکومت کو تشویش اس بات کی ہے کہ اگر اس مجوزہ ڈیم کی تعمیر ہونے دیں گے تو کے آرایس اور کنبنی ڈیموں کے بعد میکے داٹو ڈیم بھی بھرنے تک تمل ناڈو کو پانی نہیں ملے گا۔ اسی لئے تمل ناڈو میکے داٹو منصوبے کی کھل کر مخالفت کررہاہے۔
کیا منصوبہ جاری ہوگا؟:میکے داٹو آبی ڈیم کے لئے قریب 12500ایکٹر زمین درکارہے۔ اس میں صرف 10فی صدزمین ہی روینیو کی ہے بقیہ 90فی صدفوریسٹ علاقے سے بھری پڑی ہے۔ فوریسٹ کے ساتھ ساتھ سنگم، مُتّتِّی، بھیمشوری ،گالی بورے ، فشنگ کیمپ جیسے سیاحتی مراکز بھی ڈوب جائیں گے۔ مجوزہ ڈیم علاقےمیں ہاتھی کاریڈار بھی ہے جو برائے نام رہ جائےگا۔ اسی لئے ماہر ماحولیات مجوزہ منصوبے کے بدلے دوسر امنصوبہ تشکیل دینے کی بات کہتے رہے ہیں۔ مجوزہ منصوبے کے ذریعے بے شمار فوریسٹ علاقہ ڈوبنے کی وجہ سے میکے داٹو منصوبے کو نافذ کرنے کے لئے مرکزی وزارت فوریسٹ کی منظوری بھی چاہئے۔ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کاویری ندی نیرو پرادھیکار کی تائید بھی کرناٹک کو ملنی چاہئے۔
جنوری 2019میں کرناٹک حکومت نے مرکزی جل آیوگ کو میکے داٹو کے متعلق تفصیلی منصوبہ رپورٹ (ڈی پی آر)سونپی ہے۔ مرکزی حکومت نے رپورٹ کو کاویری پرادھیکار کو ارسال کی ہے۔ کاویری ندی کے وادی والے سبھی ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کےلئے کاویری پرادھیکار کی تشکیل ہوئی ہے۔ پرادھیکار میٹنگ منعقد کرتےہوئے متعلقہ وادی کے سبھی ریاستوں کی منظوری لیتی ہے تو میکے داٹو منصوبہ تقریبا ً کامیاب ہوسکتاہے۔ لیکن تمل ناڈو اورپدوچیری جیسی ریاستیں اس کو آسانی سے نہیں مانیں گی ، اس کے علاوہ تمل ناڈوکی قانونی جدوجہد بھی چل رہی ہے۔کاویری ندی کرناٹک(320کلومیٹر) سے زیادہ تمل ناڈو (416کلومیٹر)میں بہتی ہے۔ وہاں کے چند اضلاع کے لئے کاویری ندی آبِ حیات کا درجہ رکھتی ہے اور سیاسی اثرات رکھنے والی ندی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مجوزہ منصوبے کے لئے تمل ناڈو آسانی سے مان لےگا ؟ تمل ناڈو کی طرف سے ملنے والے جواب پر ہی اب میکے داٹو ڈیم کا مستقبل چھپا ہواہے۔ اگر مرکزی حکومت کی طرف سے یہ کہہ کر منظوری ملتی ہے کہ یہ ایک پینے کے پانی کا منصوبہ ہے تو مرکزی حکومت کے لئے یہ بھی ضروری ہوگا کہ مرکزی حکومت کے تعاون کے بغیر اس منصوبہ پر عمل آوری ممکن نہیں ہے۔