جوئیڈا کے بعد ہلیال - کاروار - انکولہ میں بھی وہاٹس ایپ اسٹیٹس کو لے کر ہوا تنازعہ - پولس تھانوں کے باہر احتجاج؛ دو گرفتار
بھٹکل،25 / جنوری (ایس او نیوز) جوئیڈا میں دو دن قبل مسلم نوجوانوں کی طرف سے مُبینہ طور پر ہندو مخالف وہاٹس ایپ اسٹیٹس رکھنے سے جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ضلع اُترکنڑا کے انکولہ اور کاروار سے بھی سامنے آیا ہے جس کے خلاف ہندو تنظیموں بالخصوص سنگھ پریوار کے کارکنان نے پولس تھانوں کے باہر جمع ہوکر سخت احتجاج کیا اور ملزمین کے خلاف کیس درج کرنے کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ جبکہ ہلیال میں اسی طرح کے ایک معاملے میں ایک غیر مسلم نوجوان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے ۔
ذرائع کی اطلاع کے مطابق انکولہ ہولی دیورا واڈا کے رہنے والے ایک مسلم نوجوان پر الزام ہے کہ اس نے انسٹاگرام پر ہندووں کے جذبات کے ٹھیس پہنچانے والا کوئی میسیج پوسٹ کیا تھا جسے دیکھ کر ہندو تنظیموں کے نوجوان مشتعل ہوگئے اور ملزم کے خلاف کڑی کارروائی کرنے اور سر عام معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن کے احاطے میں جمع ہوگئے ۔ مشتعل ہندو نوجوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی ایس آئی اُدّپّا نے کہا کہ سر عام معافی مانگنے کا مطالبہ پورا کرنا پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ۔تا ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے ۔ اس پر کچھ دیر تک پولیس اور احتجاجی ہندو نوجوانوں کے درمیان تو تو میں میں ہوتی رہی۔
اس موقع پر پولیس اسٹیشن پہنچے ہوئے مسلم اداروں کے لیڈروں نے صاف کر دیا کہ اس واقعہ سے مسلم طبقہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ یہاں کے مقامی مسلمانوں ہندووں کے ساتھ کسی بھید بھاو کے بغیر ہم آہنگی کے ساتھ زندگی جی رہے ہیں ۔ ہم ہندووں کے تمام پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں ۔ دوسری جگہوں سے یہاں آ کر بسنے والے چند لوگ اس طرح امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی کے خلاف ہتک آمیز تحریروں کے ذریعہ غیر قانونی حرکتوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اس لئے مسلم طبقہ کی طرف سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے ۔
مشتعل احتجاجیوں نے سر عام معافی مانگنے کے مطالبہ پر اصرار کیا تو دونوں فرقوں کے لیڈروں کو مل جل کر مسئلہ حل کرنے کا موقع دیا گیا ۔ اس موقع پر جب سی پی آئی سنتوش شیٹی نے بتایا کہ اگر عوام کی طرف سے شکایت موصول نہیں ہوئی تو پھر پولیس از خود اپنی طرف سے کیس درج کرے گی اور قانون کےمطابق کڑی کارروائی کرے گی ۔ سی پی آئی کی اس یقین دہانی کے بعد احتجاجی مظاہرہ ختم کرتے ہوئے ہندو نوجوانوں نے زعفرانی جھنڈے لے کر جلوس نکالا۔
کاروار میں کیا ہوا : انکولہ کے مسلم نوجوان نے مُبینہ طور پر جو متنازع میسیج پوسٹ کیا تھا اُسی میسیج کو لے کر کاروار کے ایک نوجوان اور ایک نابالغ لڑکے پر الزام ہے کہ انہوں نے اسے شیئر کیا ۔ اس سلسلے میں کاروار شہری پولیس تھانے میں کیس درج کرنے کے بعد دونوں لڑکوں کو پولیس اسٹیشن میں تفتیش کے لئے لایا گیا ۔ پتہ چلا ہے کہ نابالغ لڑکے کو تفتیش کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ دوسرے نوجوان کو اس معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
نابالغ لڑکے نے جو میسیج شیئر کیا تھا اس کے خلاف چیتاکول پولیس اسٹیشن کے سامنے ہندو نوجوان جمع ہو کر احتجاج کرنے لگے ۔ اس کے بعد مذکورہ نوجوان نے سر عام معافی مانگی جس کے بعد معاملہ رفع دفع کیا گیا ۔ پتہ چلا ہے کہ سداشیوگڑھ میں بھی اسی قسم کے میسیج شیئر کرنے کی وجہ سے ماحول کشیدہ ہوگیا تھا۔
ہلیال میں وہاٹس ایپ اسٹیٹس کو لے کر تنازعہ : ہلیال کے گردولّی گرام کے رہنے والے ستیش نامی نوجوان پر بھی الزام ہے کہ اُس نے فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کا پیغام اپنے وہاٹس ایپ اسٹیٹس پر شیئر کیا جس کو لے کر ہلیال پولیس نے اس کے خلاف کیس درج کیا ہے اور اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا ہے، جہاں سے اس کو عدالتی حراست میں بھیجا گیا ہے۔
ذمہ داران نے عوام سے اپیل کی ہے کہ سوشیل میڈیا پر کوئی بھی میسیج پوسٹ کرنے سے پہلے مسیج کے مثبت اور منفی دونوں پہلوں کو جان کر اور اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی شیئر یا فارورڈ کریں، اسی طرح وہاٹس ایپ اسٹیٹس کے تعلق سے بھی چوکنا رہیں۔