منگلورو: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں تشدد۔ کرناٹکا اور کیرالہ کی سرحد پر بسنے والے 650سے زائدافراد کو پولیس نے بھیجا نوٹس
منگلورو19/جنوری (ایس او نیوز) آج سے ایک ماہ قبل 19دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے میں جو تشدد ہواتھا اس ضمن میں پولیس مختلف زاویوں سے کارروائیاں کررہی ہے اور لوگوں پر مقدمات دائر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
خبر ملی ہے کہ منگلورو پولیس نے اب تازہ اقدام کے طور پر کرناٹکا اور کیرالہ کی سرحدی علاقے میں رہنے والے 650سے زائدافراد کو نوٹس جاری کیا ہے۔جن میں طلبہ، ملازمین اور خواتین بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ 19دسمبر کے دن احتجاجی مظاہرے کے لئے اجازت دینے کے بعدپولیس نے اچانک راتوں رات دفعہ 144لاگو کردی تھی۔ جس کےبعد شہریت قانون کے خلاف احتجاج کو ملتوی کیا گیا تھا، لیکن جن لوگوں کو احتجاج ملتوی کرنے کی اطلاع نہیں تھی، اُن کے کچھ گروہ اسٹیٹ بینک اور ہمپن کٹّا علاقے میں جمع ہوئے تھے جہاں امتناعی احکامات کا حوالہ دے کر پولس نے اچانک پولیس لاٹھی چارج شروع کردیا تھا پولیس کے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور فائرنگ میں جہاں دو لوگوں کی جان چلی گئی وہیں کئی افرا د زخمی بھی ہوگئے تھے۔ اس دوران عوام کے بعض گروپوں نے پولس پر پتھراو شروع کردیا تھا۔
واقعے کے بعد پولیس نے سیکڑوں لوگوں پر مقدمات درج کیے اور کچھ ملزمین کو گرفتار بھی کرلیا۔ سوشیل میڈیا پراشتعال انگیز پیغامات ارسال کرنے کے الزام میں بھی کچھ لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تھیں جبکہ بیرون ملک مقیم کئی افراد پربھی کیس درج کیے گئے ہیں۔
اب پولیس نے موبائل فون ٹاورکے ذریعے احتجاج والے دن لوگوں کے لوکیشن معلوم کرنا شروع کیا ہے اوراس دن مختلف کام او راسباب سے منگلورو شہرمیں موجودرہنے والوں کی جانچ کررہی ہے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ ان میں سے کون کون امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرے اور تشدد میں شامل ہوئے تھے۔
منجیشور، اوپلا، کونجتورو، ہوسانگڈی اور کاسرگوڈ جیسے شہروں میں اسپیڈ پوسٹ کے ذریعے جن لوگوں کونوٹس بھیجی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو یہ جانکاری ملی ہے کہ 19دسمبر کو منگلورو میں غیر قانونی طور پر جمع ہونے اور بدامنی پیدا کرنے والوں میں تم بھی شامل ہو۔ اس لئے نوٹس میں دی گئی مقرر ہ تاریخ اور وقت پر تمہیں منگلورو میں بندر پولیس اسٹیشن میں پوچھ تاچھ کے لئے حاضر ہونا ہے۔
ڈی وائی ایف وائی کے ریاستی صدر منیر کاٹیا پاڈی نے منگلورو پولیس کمشنریٹ کی جانب سے کیرالہ کے لوگوں کو نشانہ بنائے جانے پر مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹکا کیرالہ سرحدی علاقے سے تعلیم، روزگار، مزدوری،علاج و معالجہ، عام کاروباراور مچھلیاں وغیرہ خریدنے کے لئے روزانہ بڑی تعداد میں لوگوں کامنگلورو شہر میں آنا جانا معمول کی بات ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ نوٹس ملنے کے بعد سنیچر کے دن بہت سارے طلبہ اور ملازمین بندر پولیس اسٹیشن میں حاضر ہوئے اور احتجاج والے دن منگلورو شہر میں اپنی موجود گی کے لئے بزنس، تعلیم اور ملازمت جیسے اسباب بتائے۔ پولیس نے ان کے موبائل فون نمبرس اور دستخط لینے کے بعد اس ہدایت کے ساتھ جانے دیا کہ اگر انہیں کریمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) کی طرف سے تحقیقات کے لئے حاضر ہونے کی نوٹس موصول ہوتی ہے تو لازمی طور پر انہیں حاضر ہونا پڑے گا۔یہ بھی پتہ چلا ہے کہ پولیس کی طرف سے جاری کی گئی نوٹس کا جواب دینے اورمنگلورو میں اپنی موجودگی کی وضاحت کرنے کے لئے مچھلی فروش خواتین بھی پولیس اسٹیشن پہنچی تھیں۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے جاری کی گئی نوٹس کا منفی اثر یہ ہوا ہے کہ کچھ طلبہ نے اسکولوں اور کالجوں میں حاضر ہونا بند کردیا ہے۔ کچھ لوگ جودوسرے کام سے شہر میں آیا کرتے تھے وہ بھی اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنہوں نے میڈیا کے سامنے پولیس کی زیادتی اور حقائق بیان کیے تھے انہیں بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
میڈیا کے ذریعے بندر پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر گووندا راجو سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے سرے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہ کسی کو نوٹس بھیجی گئی ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ جبکہ لوگ ا س بات پر قائم ہیں کہ انہیں نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور اس میں دفعہ143(غیر قانونی طور پر جمع ہونا)، 147(بدامنی پھیلانے میں حصہ لینا)،148(غیر قانونی طور پر اپنے پاس ہتھیار رکھنا)۔188(امتناعی احکام کی خلاف ورزی کرنا)،353 (حملہ کرنا)، 427 (سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا)،307(قاتلانہ حملہ کرنا) اور 120(سازش رچنا) جیسی اور بھی آئی پی سی کی کچھ دفعات لگائی گئی ہیں۔