بابری مسجد ثالثی: ’عوامی وکاس پارٹی کے صدر نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بی جے پی اور سنگھ پریوار کے منہ پر طمانچہ قرار دیا
ممبئی،8؍مارچ (ایس او نیوز؍ یو این آئی) رام مندر بابری مسجد تنازعہ کی اہم سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ کیا کہ بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ آپسی سمجھوتے سے ختم ہو اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے تین رکنی پینل کی تشکیل کی گئی۔ یہ پینل تمام فریقین کو سن کر آپسی سمجھوتہ بنانے کی کوشش کرے گا اور اپنی کوشش اور فیصلے کو 8 ہفتوں بعد سپریم کورٹ کو سونپ دے گا۔
اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ’عوامی وکاس پارٹی‘ کے صدر اور سابق اسسٹنٹ کمشنر آف پولس نے شمشیر خان پٹھان نے کہا کہ اس فیصلہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو ایک زوردار طمانچہ لگا۔ انہوں نے کہا، ’’اس فیصلے کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے چہرے اتر گئے کیونکہ 3 رکنی پینل میں کسی بھی سیاسی لیڈر یا سنگھ پریوار کے کسی بھی رکن کو رکھا نہیں گیا اور کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس مصلحت کی کوشش کی رپورٹنگ کوئی بھی پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا شائع نہیں کرے گا اس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی بولتی بند ہو گئی اور آنے والے لوک سبھا کے الیکشن کے دوران بی جے پی اور سنگھ پریوار رام مندر کا مدعہ ووٹ پانے کیلئے نہیں بنا سکے گا۔ اس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار میں مایوسی کا ماحول چھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کو سوجھ بوجھ اور صحیح مصلحت سے کام لینا چاہیئے۔ خاص طور سے مسلمانوں کی انتہا پسند تنظیموں کو بیان بازی اور کورٹ کے فیصلے سے دور رکھنا چاہیے اور جو کوئی بھی مسلم تنظیم یا فرد اس مصلحت کی کوشش میں الٹے سیدھے بیان دے اس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔
شمشیر خان پٹھان نے مزید کہا کہ اگر مصلحت کی کوشش ناکام ہوئی تو دو صورت میں اس کیس کا فیصلہ آ سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ فیصلہ سنّی وقف بورڈ کے حق میں آ سکتا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ فیصلہ حق میں آنے کے بعد کیا ہم اس جگہ جہاں مورتی رکھی ہے، اس کو توڑ کر دوبارہ مسجد بنا سکتے ہیں؟ اس کا جواب سو فیصدی منفی ہے کیونکہ اس سے ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اور دوسری طرف بھاجپا اس مدع کو بھنا کر پارلیمنٹ میں ہنگامہ کاری کر سکتی ہے اور ملک میں دہشت اور تشدد کا ماحول پیدا کر سکتی ہے۔ بہر حال جیت کر بھی ہماری ہار یقینی ہے اور ساتھ ہی میں ملک کا فرقہ وارانہ ماحول بھی بڑے پیمانے پر خراب ہو سکتا ہے۔
دوسری صورت میں اگر فیصلہ سنّی وقف بورڈ کے خلاف جاتا ہے تو بی جے پی اور سنگھ پریوار پورے ملک میں گھوم گھوم کر شیلانیاس کے نام پر ملک کا ماحول خراب کر سکتے ہیں اور فرقہ وارانہ فساد کرنے کی پوری کوشش کر سکتے ہیں۔ اس طرح دونوں ہی صورتوں میں ملک کی سالمیت کو خطرہ ہے، اس لئے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہو گا۔