گلبرگہ میں ایس ڈی پی آئی کا احتجاج؛ مسلم ارکان اسمبلی سے مسلمانوں کے مسائل اٹھانے یا پھرمستعفی ہونے کا کیا مطالبہ
گلبرگہ،14جنوری(پریس ریلیز/ایس او نیوز) سوشل ڈیموکریکٹ پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے مسلمانوں کے مسائل کو اسمبلی میں اُٹھانے یا پھر مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایس ڈی پی آئی نے گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے محترمہ کنیز فاطمہ سمیت دیگر مسلم ارکان اسمبلی کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یا تو وہ ایوان اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل کواُٹھاتے ہوئے اپنی خاموشی توڑے، یا پھر مستعفی ہوکر دوسروں کو موقع دیں۔
ایس ڈی پی آئی لیڈران کا کہنا ہے کہ کنیز فاطمہ سمیت نو مسلم ایم ایل ایز کو مسلم نمائندے کے طور پر منتخب کرکے اسمبلی بھیجا گیا تھا تاہم تمام مسلم ایم ایل ایز مسلمانوں کی آواز بننے کے بجائے اپنے مفادات کی خاطر خاموش ہیں۔ یہ مسلم ایم ایل ایز نہ تو اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی پارٹی فورم میں۔ ایس ڈی پی آئی نے ریاست کے تمام نو مسلم ایم ایل ایز کے خلاف احتجاج کیا۔
گلبرگہ میں مقامی ایم ایل اے کنیز فاطمہ کی رہائش گاہ کے باہر مین روڈ پر جمہوری طریقے سے پر امن انداز میں مقامی صدر سید دستگیر کی قیادت میں احتجاج کیا گیا۔ اس احتجاج کو" چپی توڑو مسلم ایم ایل ایز "کا نام دیا گیا تھا۔ احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ سے چپی توڑنے کے نعرے لگائے۔ قبل ازیں تماپوری سرکل سے کنیز فاطمہ کی رہائش گاہ تک سخت پولیس سیکورٹی کے درمیان احتجاجی جلوس نکالا گیا۔ احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ کی مکمل سیاسی خاموشی پر سوال اٹھائے۔ خاص کر سنگھی لیڈر پربھا کر بھٹ نے جب مسلم خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے، تب بھی کنیز فاطمہ کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں آیا۔ کنیز فاطمہ نے نہ ہی کوئی احتجاج کیا، نہ کوئی قانونی کارروائی کی اور نہ ہی کوئی اخباری بیان دینے کی جسارت کی۔ بر خلاف اس کے حجاب معاملے پر سدرامیا کے بیان پر جلد بازی میں کریڈٹ لینے کی کوشش میں غلط بیانی سے کام لیا اور اپنی نا تجربہ کاری سب پر عیاں کر دی۔
احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ سے سوال کیا کہ کانگریس ہائی کمان نے اپنے انتخابی منشور میں مسلم ریزرویشن کو بحال کرنے، حجاب اور گؤ کشی قانون کو واپس لینے کی بات کہی تھی اور اپنے انتخابی جلسوں میں بھی کنیز فاطمہ نے یہ باتیں دوہرائی تھی، اب جبکہ حکومت بن کر سات ماہ سے زائد کا وقفہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود نہ حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی کنیز فاطمہ اور دیگر مسلم ایم ایل ایز نے اس معاملے پر حکومت پر دباؤ بنایا۔
احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ سے مسلم ریزرویشن، دس ہزار کروڑ اقلیتی بجٹ، حجاب، مسلم طلباء کیلئے اسکالر شپ، الند، ہبلی، کے جی ہلی، ڈی جے ہلی معاملے پر حکومت پر دباؤ بنانے اور اپنا موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔ احتجاجیوں نے گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے کے سرکاری دفتر کے تعلق سے بھی وضاحت طلب کی۔ احتجاجیوں کا کہنا تھا کہ منی ودھان سودھا کیمپس میں لوک سبھا ایم پی، راجیہ سبھا ایم پی، گلبرگہ انچارج منسٹر اور گلبرگہ ساؤتھ ایم ایل اے کا سرکاری دفتر موجود ہے، لیکن گلبرگہ نارتھ ایم ایل اے کا کوئی سرکاری دفتر نہیں ہے۔
احتجاجیوں نے سوال کیا کہ عوام اپنے مسائل لے کر کہاں جائیں۔عوام جب کنیز فاطمہ کی رہائش گاہ پر پہنچتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ میڈم آرام کر رہی ہیں۔ احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ کو اپنے مرحوم شوہر الحاج قمر الاسلام کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دیا، جو کبھی بھی مسلم مسائل کی یکسوئی میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ احتجاجیوں نے کہا کہ جب تک قمر الاسلام صاحب باحیات تھے، پرینک کھرگے انکے روبرو کھڑے ہونے کی بھی جسارت نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہ ملیکارجن کھرگے بھی قمر الاسلام سے خائف رہتے تھے، لیکن آج کنیز فاطمہ پرینک کھرگے اور ملیکارجن کھرگے سے مرعوب ہو کر انھیں بڑے صاحب اور چھوٹے صاحب کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ ہر کام پرینک کھرگے کے تابع ہو کر کرتی ہیں۔ احتجاجیوں نے کنیز فاطمہ سے کھرگے جوڑی سے مرعوب نہ ہونے کا مشورہ دیا اور مسلم مسائل کی یکسوئی میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی آواز دی۔
احتجاجیوں نے دیگر مسلم ایم ایل ایز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ احتجاجیوں نے کہا کہ کبھی کوئی لیڈر سونیا یا راہل گاندھی کے خلاف بیان دیتا ہے تو یہ مسلم ایم ایل ایز خوشامدانہ پالیسی کے تحت بیان بازی یا سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، اس کے بر خلاف برسر اقتدار حکومت میں ہی مسلمانوں کی حق تلفی ہوتی ہے تو یہ بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ احتجاجیوں نے کانگریس ہائی کمان پر بھی مسلم ایم ایل ایز اور مسلم مسائل کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا۔ احتجاجیوں نے کہا کہ ریاست بھر کے55لاکھ مسلم ووٹرس نے کانگریس کو ووٹ دیا اور دوسری کمیونیٹز کے بر خلاف مسلمانوں نے88فیصد ووٹ کانگریس کو دئے، اس کے باوجود کانگریس مسلسل مسلمانوں کو نظر انداز کر رہی ہے اور مسلم مسائل کی یکسوئی اور انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں پر سنجیدہ نہیں ہے۔
احتجاج میں ایس ڈی پی آئی کے مقامی صدر سید دستگیر کے علاوہ ریاستی نائب صدر سیدہ سعیدہ، ریاستی صدر ایس ڈی ٹی یو آئی عبد الرحیم پٹیل، سٹی جنرل سکریٹری علیم الہی، سینئر لیڈر محمد محسن کے علاوہ کئی ایک کارکن اور برقعہ پوش خواتین نے حصہ لیا۔ ایس ڈی پی آئی لیڈران یہ احتجاج کنیز فاطمہ کی رہائش گاہ کے عین روبرو کرنا چاہتے تھے تاہم پولیس نے بریکیڈس کھڑا کرتے ہوئے احتجاجیوں کو مین روڈ پر ہی روک لیا۔ احتجاج کے پیش نظر سیکورٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا۔ کم از کم چھ ایس آئی، ایک اے سی، ایک ڈی وائی سی سمیت بیسوں کانسٹبلوں کو تعینات کیا گیا تھا۔