دہلی ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ ۔کہا؛ احتجاج بنیادی حق ہے،اسے دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا۔یو اے پی اے کےاندھادھند اطلاق پر عدالت گرم؛ تین طلبہ کو ملی ضمانت
نئی دہلی، 16؍ جون (ایس او نیوز؍ایجنسی) دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کی سخت سرزنش کی ہے اور کہا ہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میں حکومت نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی بنیادی آزادی اور دہشت گردی کو آپس میں گڈ مڈ کرکے رکھ دیاہے۔ اسی کے ساتھ ہی عدالت نے نتاشا ناروال ، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا، کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ احتجاج کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔
جسٹس سدھارتھ مردُل اور جسٹس انوپم جے رام بھامبھانی نے ملزمین کو راحت فراہم کرتے ہوئے اپنے انتہائی سخت تبصرہ میں کہا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میں ، حکومت کے دماغ میں، آئین کے ذریعہ فراہم کردہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی آزادی اور دہشت گردی کے درمیان کی خط فاصل مندمل ہوتی جارہی ہے،اگر یہی ذہنیت آگے بڑھتی رہی تو وہ جمہوریت کیلئے انتہائی افسوسناک دن ہوگا۔‘‘
113، 83اور 72 صفحات کے تین الگ الگ فیصلوں میں کورٹ نے کہا ہے کہ یو اے پی اے میں ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف بہت زیادہ وسیع اور کسی حد تک مبہم ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے پولیس کو متنبہ کیا ہےکہ وہ اندھاندھند طریقے سے اس دفعہ کا اطلاق کرنے سے گریز کرے۔ کورٹ نے واضح کیا کہ اس کا اطلاق ان جرائم پر نہیں کیا جاسکتا جو تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت آتے ہیں۔
یاد رہے کہ آصف اقبال تنہا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم اور اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کے سرگرم رکن ہیں۔ دیوانگنا کلیتا اور نتاشا ناروال جے این یو میں پی ایچ ڈی اسکالر اور مشہور تنظیم پنجرہ توڑ سے وابستہ ہیں۔ یہ تینوں ان نوجوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ملک گیر احتجاج کی قیادت کی تھی جس کی پاداش میں انہیں دہلی فساد کی ’’وسیع ترسازش‘‘ کا ملزم بنادیاگیا۔ کورٹ نے تینوں ملزمین کوضمانت کی شرط کے طورپر اپنے پاسپورٹ جمع کرانے نیز استغاثہ کے گواہوں سے دور رہنے اورثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی ہدایت دی ہے اور رہائی کیلئے50 ہزارروپے کاذاتی مچلکہ اور 2ضمانت دار بھی پیش کرنے کے لئے کہا ہے۔
کورٹ نے آصف اقبال تنہا کو ضمانت پر رہا کرنے کا113 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس نظریہ کے حامل ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیادیں مستحکم ہیں اور وہ مظاہروں سے نہیں ہل جائیں گے، وہ کالج کے طلبہ اور دیگر شہری گروپس کے کیسے ہی زہریلے اور منظم مظاہرے کیوں نہ ہوںا ور وہ بھلے ہی قلب دہلی میں واقع یونیورسٹی سے کوآرڈنیشن کمیٹی کی شکل میں ہی کام کیوں نہ کر رہے ہوں۔‘‘ آصف اقبال تنہا کے مبینہ جرائم پر پولیس کے اصرار پر عدالت کا جواب تھا کہ ’’عرضی گزار نے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو، کم از کم پہلی نظر میں حکومت ہمیں یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہے کہ ملزم کے خلاف عائد کئے گئے الزامات میں یو اے پی اے کے سیکشن 15، 17یا 18 کے تحت جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ ‘‘ واضح رہے کہ یو اے پی اے کا سیکشن 15 دہشت گردانہ فعل سے متعلق ہے۔
دیوانگنا کلیتا کوضمانت دیتے ہوئے کورٹ نے دوٹوک لہجے میں پولیس کو متنبہ کیا کہ احتجاج بنیادی حق ہے،اسے دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا۔کورٹ نے یواے پی اے کےتحت دہشت گردی کی تعریف کی بھی محتاط انداز میں تشریح کی ضرورت پر زور دیا۔ دورکنی بنچ نے مرکزی حکومت کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بناتےہوئے فیصلے میں کہا کہ ’’یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہاہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میں اور اس دوران اس خوف میں کہ کہیں صورتحال ہاتھ سے نکل نہ جائے، حکومت نے آئینی طور پر فراہم کئے گئے احتجاج کے بنیادی حق اور دہشت گردی کے درمیان خط فاصل کو دھندلا کردیا ہے۔‘‘ کورٹ نے کہا کہ ’’دھندلا کرنے کی یہ ذہنیت اگر جاری رہی توہماری جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجائےگا۔‘‘ دیوانگنا کلیتا کوضمانت دینے کے 83 صفحات کے فیصلے میں کورٹ نے واضح کیا اور طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ اسلحہ کے بغیر پر امن طریقے سے احتجاج آئین کے آرٹیکل 19 (1) (بی) کے تحت بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دی گئی ہے اورابھی اسے غیر قانونی نہیں قرار دیاگیا ہے۔
عدالت نے واضح کیاہے کہ ملزمین کے خلاف چارج شیٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہیں ضمانت کے حق سے محروم کیا جاسکے ۔