راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت بحال ہونا ’اِنڈیا‘ کی جیت ’گجرات‘ کی ہار!۔۔۔۔۔۔۔۔ از: اعظم شہاب
کُشتی میں ایک داؤ ’دھوبی پچھاڑ‘ ہوا کرتا ہے۔ اس میں مدمقابل کو سر سے بلند کرتے ہوئے پٹخنی دی جاتی ہے۔ اس داؤ کے بعد مدمقابل چاروں خانے چت ہو جاتا ہے، لیکن کچھ ڈھیٹ قسم کے لوگ اس حالت میں بھی اپنی ٹانگیں اوپر کر لیتے ہیں تاکہ شکست کی ہزیمت کو چھپاسکیں۔ مودی سرنیم معاملے میں راہل گاندھی کی سزا پر روک لگا کر سپریم کورٹ نے بی جے پی کو دھوبی پچھاڑ دے دیا۔ اس ہزیمت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ راہل گاندھی کی رکنیت بحالی کا فیصلہ اسی طرح کر دیا جاتا جس طرح 7 جولائی کو گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے کے 24 گھنٹے کے اندر منسوخی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن تین دن تک التواء میں رکھ کر مزید رسوائی کا سامان کر لیا گیا۔ اسے کہتے ہیں گرے تو بھی ٹانگیں اوپر۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے اسپیکر سے ملاقات کر کے رکنیت بحالی کا فوراً مطالبہ کیا تھا، لیکن حکم نامے کی موصولی کی بات کہہ کر اسے ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن 7 جولائی کو جب سورت کی سیشن عدالت نے راہل گاندھی کو دو سال کی سزا سنائی تو 24 گھنٹے کے اندر یہ فیصلہ نہ صرف جناب اسپیکر کو موصول ہو گیا تھا بلکہ گجراتی زبان میں درج 120 صفحے کے فیصلے کا ترجمہ بھی ہو گیا تھا اور اس پر فورآ عمل درآمد بھی ہو گیا تھا۔ یعنی راہل گاندھی کی رکنیت منسوخ کر دی گئی تھی۔ سزا پر روک کا سپریم کورٹ کا فیصلہ یقینا گجراتی زبان میں نہیں رہا ہوگا کہ اس کا بھی ترجمہ کرایا جاتا۔ پھر بھی یہ فیصلہ اسپیکر صاحب تک پہنچنے اور اس پر عمل ہونے میں تین دن لگ گئے۔
راہل گاندھی کی رکنیت بحالی کو ’نفرت پر محبت کی جیت‘ بتائی جا رہی ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ ’اِنڈیا‘ کی جیت اور ’گجرات‘ کی ہاربھی ہے۔ اِنڈیا کی جیت اس لحاظ سے کہ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے دور رکھ کر پورے اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی وجہ پارلیمنٹ میں اڈانی سے متعلق وزیر اعظم مودی سے راہل گاندھی کے وہ سوالات تھے، جن کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعظم کا گلا تک خشک ہو گیا تھا۔ انہوں نے 85 منٹ کی اپنی تقریر میں ہر موضوع پر بات کی تھی مگر اڈانی کا نام تک نہیں لیا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ راہل گاندھی نے وزیر اعظم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا، جس سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ راہل گاندھی کو پارلیمنٹ سے باہر کر دیا جائے۔ اس کے ذریعے اپوزیشن کو یہ پیغام دیا گیا کہ پردھان سیوک سے سوالات نہ کئے جائیں۔
راہل گاندھی کے خلاف کارروائی سے بی جے پی نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب اپوزیشن کا زور ٹوٹ جائے گا، لیکن اس کے برعکس ہو گیا۔ اپوزیشن کی 26 پارٹیو ں نے مل کر ’اِنڈیا‘ بنا لیا جس سے بی جے پی کے خلاف ایک مضبوط محاذ وجود میں آ گیا۔ کہاں تو راہل گاندھی کے خلاف کارروائی کے ذریعے اپوزیشن کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور کہاں یہ کارروائی اتحاد کا پیش خیمہ بن گئی۔ پارلیمنٹ سے دور رہ کر راہل گاندھی نے اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کرنے میں اہم کردار نبھایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کا بی جے پی کے خلاف ایک متحدہ محاذ وجود میں آ گیا۔ یہ محاذ اس قدر مضبوط بنا کہ بی جے پی کو 38 پارٹیوں کے این ڈی اے محاذ کا اعلان کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے راہل گاندھی کی جیت انڈیا کی جیت قرار پاتی ہے۔
راہل گاندھی کی یہ جیت گجرات کی ہار اس لیے ہے کہ مودی سرنیم ہتک عزت کے مقدمے کی پوری بنیاد ہی گجرات پر ٹکی ہے۔ راہل گاندھی نے مودی سرنیم سے متعلق بیان کرناٹک کے کولار میں دیا لیکن مقدمہ درج ہوا گجرات کے سورت میں۔ مقدمہ درج کرانے والے پورنیش مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔ گجرات کی سورت سیشن عدالت نے راہل گاندھی کو 2 سال کی سزا سنائی جسے گجرات ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی پیروی کرنے والے وکیل مہیش جیٹھ ملانی بھی گجرات کے، مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل بھی گجرات کے، راہل گاندھی نے جن کے خلاف محاذ کھولا تھا اور جن سے متعلق وزیر اعظم کو پارلیمنٹ میں پانی پینے پر مجبور کر دیا تھا وہ گوتم اڈانی صاحب گجرات کے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی گجرات کے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے راہل گاندھی کی سزا پر روک سے اگر ایک جانب انڈیا جیت گئی ہے تو دوسری جانب پوری گجرات لابی ہار گئی ہے۔
پارلیمنٹ کی رکنیت بحالی کے بعد اب راہل گاندھی دوبارہ پارلیمنٹ میں اپنے سوالات سے پردھان سیوک کو پانی پینے پر مجبور کر دیں گے۔ وہ منی پور میں جاری تشدد پر سوال کریں گے، وہ اڈانی اور وزیر اعظم کے رشتے کی وضاحت طلب کریں گے۔ وہ ہریانہ فساد پر بھی سوال کریں گے جن کے جواب دینے میں مودی حکومت پسینے میں شرابور ہو جائے گی کیونکہ اس کے پاس ان کا کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس یقین کا اظہار ابھی سے کیا جانے لگا ہے کہ راہل گاندھی کی پارلیمنٹ میں واپسی مودی حکومت کی مشکلات بڑھا دے گی۔ اس صورت میں یہ تو مزید مشکل ثابت ہوگا جب پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پر بحث ہوگی۔ اس لیے سپریم کورٹ کے دھوبی پچھاڑ نے مودی حکومت کو ایسی پٹخنی دے دی ہے کہ وہ نہ تو اپنی ہزیمت کو چھپا سکتی ہے اور نہ ہی شکست کا اعتراف کر سکتی ہے۔
( یہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے، اس سے ادارے‘ کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)