مادری زبان کی فہرست سے اُردو غائب ، نئی تعلیمی پالیسی کے خلاف مُحبانِ اُردو اور ماہرین تعلیم کا سخت احتجاج ، حکومت سے اپنے رویہ پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ
ممبئی،11؍اگست(ایس او نیوز) مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کے ساتھ ہی اس پر عملی مخالفت کا آغاز ہوچکا ہے۔ خاص طور پر مہاراشٹرا میں جہاں کی علاقائی زبان ’’مراٹھی‘‘ اگر ریاست میں یہ پالیسی کا باقائدہ طور پر نافذ ہوگئی و یقیناً مستقبل میں یہاں ’’اُردو‘‘ زبان ختم ہوجائے گی، کیوں کہ نئی تعلیمی پالیسی میں جو لسانی فارمولا پیش کیا گیا ہے اُس فارمولا میں اُردو زبان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، بلکہ مادری زبان کی فہرست میں اُردو کو نظر انداز کر کے اُس میں مراٹھی کے ساتھ ساتھ ہندی اور سنسکرت زبان کے فروغ کی خوب گنجائش رکھی گئی ہے۔
خبر ہے کہ مادری زبان کی فہرست میں اُردو زبان کو جگہ نہ دیئے جانے پر ماہرین تعلیم اور اساتذہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پالیسی پر سوال اُٹھارہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ تمام زبانوں کا تذکرہ تعلیمی پالیسی میں ہے لیکن ہماری مادری زبان اُردو کو اس میں کیوں نہیں شامل کیا گیا۔؟ یہ مبہم ہے ایسے میں سرکار سے وضاحت ضروری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُردو زبان کو سہ لسانی فارمولہ میں شامل کرنے کے ضمن میں سرکار کی توجہ مبذول کرانے کے لئے ممبئی میں ایک آن لائن اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اس زوم میٹنگ میں کئی ماہرین تعلیم ، دانشوران اور اساتذہ نے خطاب کیا اور تجاویز پیش کیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ خواتین ونگ کی صدر ڈاکٹر اسماطیبہ زہرہ نے کہا ہے کہ ہمیں سرکار کی اس پالیسی پر نگرانی رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی میں اُردو زبان کو شامل نہ کیا جانا متضاد با ہے۔
معروف عالم دین مولانا محمود دریا بادی نے بھی اس معاملے میں اپنا احتجاج درج کرایا اور کہا کہ اس کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے کہ کس طرح سے ہماری مادری زبان کے ساتھ دیگر زبانوں کو بھی اس میں جگہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹرا میں مادری زبان مراٹھی ہے تو کیا مستقبل میں ہم اپنے اُردو اسکولوں کو بند کردیں۔؟
اسی طرح اُتر پردیش میں بھی اُردو زبان بولنے اور پڑھنے والے ہیں جبکہ یہاں اُردو میڈیم کے بجائے ہندی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا ہے۔ ایک اور مندوب نے کہا کہ سہ لسانی فارمولے کو اس پالیسی میں شامل کیا گیا ہے لیکن اُردو زبان کا تذکرہ نہ کیا جانا سب کے لئے باعث اضطراب ہے۔اس میٹنگ میں کئی ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور ہیڈماسٹرز بھی موجود تھے۔ ممبئی شہر کے کئی سرکردہ ماہر تعلیم نے بھی اس مسئلہ پر اپنی رائے اور مشوروں سے نوازہ۔
واضح رہے کہ ایم ایچ آرڈی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومت نے مشمولاتی عمل کے ذریعے ایک جامع، شریک اور ہمہ گیر نقطہ نظر کے لئے نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 بنائی ہے۔ جس میں ماہرین تعلیم کی آراء، فلیڈ تجربات ، تجرباتی تحقیق اور اسٹیک ہولڈر کی آراء کے ساتھ ساتھ بہترین طریقوں سے سیکھے گئے اسباق کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔
واضح رہے کہ مرکزی سرکارکی جانب سے نئی تعلیمی پالیس کے مطابق ملک کے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق جہاں مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کو اہمیت دی گئی ہے وہیں ڈگری کورس کو 4؍ سال کرنے کا بھی فیصلہ شامل ہے۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ پیمانے پر بنیادی تعلیمی ڈھانچے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تعلیم سے متعلق وزارت کا نام بھی وزارت فروغ انسانی وسائل سے بدل کر ’’ایجوکیشن منسٹری‘‘ رکھ دیا گیا ہے ۔ اس ضمن مخالفین کا کہنا ہے، نئی تعلیمی پالیسی کے ضمن میں سرکار کے اقدامات پر مسلسل نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ نئی پالیسی کے نام پر ملک کے نظام تعلیم کو ایک مخصوص سوچ اور نہج پر لیجانے کی کوششیں نہ ہونی پائے اور اگر ہوتی ہیں تو اسے ناکام بنادیا جائے۔
(عزیز اعجاز کی رپورٹ)