اُڈپی میں چار لوگوں کے قتل کا معاملہ؛ زندہ بچنے والی عمر رسیدہ خاتون کی حالت قدرے مستحکم؛ کیاقاتل مینگلور سے آیا تھا ؟
اُڈپی 12 نومبر (ایس او نیوز) ملپے پولس تھانہ حدود کے نیجارو میں آج صبح چار افراد کے وحشیانہ قتل کے دوران ایک 70 سالہ خاتون حاجرہ حملہ آور کے حملے سے بچ کر ٹائلٹ کے اندر گھس گئی اور اندر سے دروازہ کو بند کردیا، جس سے اس کی جان بچ گئی، اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال لے جایا گیا تھا، مگر اب پتہ چلا ہے کہ اس کی حالت قدرے مستحکم ہے۔
پتہ چلا ہے کہ قاتل آج اتوار صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب حسینہ کے گھر آیا اورپندرہ منٹ کے اندر پانچ لوگوں کو چھرا گھونپ کر اُسی راستے سے آسانی کے ساتھ نکل گیا، جس میں چار لوگوں کی موت واقع ہوچکی ہے۔
مرنے والوں میں حسینہ (42) اس کی دو بیٹیاں افنان (22) اور آئیناز (20) شامل ہیں جنہیں تیز دھار ہتھیار سے وار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ حسینہ کا چھوٹا بیٹا عاصم (12) جو باہر صحن میں سائیکل چلا رہا تھا، چیخنے کی آواز سن کر گھر کے اندر بھاگا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکا جیسا ہی گھر کے اندر داخل ہوا، قاتل نے اس معصوم کو بھی نہیں بخشا اور اسے بھی چاقو مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
جس وقت حملہ آورنے حسینہ کی ساس ہاجرہ کے پیٹ میں چھرا گھونپا۔ زخمی حالت میں حاجرہ حملہ آور کے مزید وار سے بچنے کے لئے گھر کے ٹائلٹ میں گھس گئی اور اپنی جان بچانے کے لیے دروازے کو اندر سے بند کردیا۔
قتل کا معاملہ سامنے آتے ہی موقع پر پہنچی پولیس نے گھر کے اندر چھان بین کرتے ہوئے دیکھا تو پتہ چلا کہ بیت الخلاء کا دروازہ اندر سے بند ہے۔ اس وقت پولیس نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو خوف زدہ عمر رسیدہ خاتون حاجرہ نے دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کی۔ آخر کار پولیس نے دروازہ توڑ کر حاجرہ کو بازیاب کرایا اور اسے اسپتال میں داخل کرایا۔ اس کے پیٹ کے بائیں جانب چھرا گھونپا گیا تھا، اسے انتہائی نگہداشت والے کمرے (آئی سی یو) میں رکھا گیا ہے، مگر اس کی حالت قدرے مستحکم بتائی گئی ہے۔
آٹو ڈرائیور کا بیان: جس آٹو رکشہ پر سوار ہوکر قاتل حسینہ کے گھر پہنچاتھا، اُس نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ گنجا شخص جس کی عمر لگ بھگ ٤٠ سے ٤٥ سال ہوگی، اس کا پورا چہرہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا اور صرف انکھیں نظرآرہی تھی، چھوٹی سی بیگ کندھے پر ڈال رکھا تھا، قریب ساڑھے آٹھ بجے اُسے حسینہ کے گھر کے قریب چھوڑا تھا، آٹو ڈرائیورشیام نے بتایا کہ ایک موڑ پر جب اُس نے غلطی سے آٹو کو گھمایا تو سوار نے خود بتایا تھا کہ اُس طرف نہیں جانا ہے، اس مناسبت سے آٹو ڈرائیور کا کہنا ہے کہ قاتل ان کے گھر سے اچھی طرح واقف تھا۔ آٹو ڈرائیور نے یہ بھی بتایا کہ وہ کنڑا میں بات کررہا تھا اور اُس کے کنڑا بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اُس کا تعلق مینگلور سے ہوسکتا ہے۔ آٹو ڈرائیور اُسے گھر کے قریب چھوڑ کرسنتے کٹے آٹو اسٹینڈ پر آکر قطار میں لگ گیا، پندرہ منٹ کے اندرہی وہ شخص واپس سنتے کٹے آٹو اسٹینڈ پر آگیا اور سب سے آگے والے آٹو پر بیٹھ گیا، تب آٹو ڈرائیور شیام نے اُس شخص سے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی واپس آگئے، اگر مجھے انتظار کرنے کے لئے کہتے تو میں انتظار کرسکتا تھا نا!، تب اُس نے اتنا ہی بتایا کہ کوئی بات نہیں، پھر بیٹھے ہوئے آٹو ڈرائیور کو بتایا کہ جلدی چلنا ہے تھوڑا تیز چلاو، تب ڈرائیور نے اُسے بتایا کہ ٹریفک زیادہ ہے، یہاں تیز نہیں چلا سکتا، تب اُس نے اوکے کہا اور آٹو اُسے لے کر چلاگیا۔ قریب آدھے گھنٹے بعد مجھے اس واردات کی خبر ملی۔
پتہ چلا ہے کہ حسینہ کی دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی ایک فلائٹ پر ائیر ہوسٹس کے طور پر کام کرتی ہے، اُس کا قریب تین ماہ قبل ہی تقرر ہوا تھا۔ دوسری مینگلور میں ڈگری کی طالبہ تھی، ان کا بڑا بھائی25 سالہ آسد بینگلور میں ایک فلائٹ کمپنی کا گراونڈ اسٹاف ہے۔ ماں، بھائی اور دو بہنوں کے قتل کی اطلاع ملتے ہی وہ بینگلور سے اُڈپی کے لئے نکل پڑا تھا، شام تک گھر پہنچ گیا۔ گھر پہنچنے کے بعد ضروری کارروائیوں کے بعد چاروں نعشوں کو منی پال فورنسیک لیب لے جایا گیا ہے، وہیں پر پوسٹ مارٹم ہوگا۔
بتاتے چلیں کہ پولس الگ الگ زاویوں سے اس قتل کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کررہی ہے، ایسے میں وہاٹس ایپ پر مختلف قسم کے مسیجس وائرل ہورہے ہیں۔ وائرل مسیجس کے تعلق سے بتایا گیا ہے کہ اُس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔