سیول سروسس، جوڈیشیری اور میڈیا میں آبادی کے حساب سے مسلمانوں کی نمائندگی ضروری؛ مولانا فضل الرحیم مجّددی کا بھٹکل میں پرسوز خطاب
بھٹکل12 مئی (ایس او نیوز) ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری ملک کا اُصول یہ ہوتا ہے کہ جس کی جتنی آبادی ہوتی ہے ملک میں اُس کی اتنی حصہ داری ہوتی ہے۔ یعنی آبادی کے تناسب کے حساب سے ملک کے تمام شعبوں کی انتظامیہ میں اُتنی ہی حصہ داری ہونی چاہئے۔ ضابطہ اور اُصول کے مطابق اگر آپ کی آبادی 18 فیصد ہے توپارلیمنٹ میں 18 فیصد اراکین آپ کے ہونے چاہئے آئی اے ایس، آئی پی ایس محکمہ پولس، جوڈیشری، میڈیا اوردیگر تمام محکموں میں بھی آپ 18 فیصد ہونے چاہئے۔ یہ بات کریسنٹ اکیڈمی فور سیول سروس ایکزام (نئی دہلی) کے بانی و صدر مولانا فضل الرحیم مجدّدی نے کہی۔
بھٹکل میں رابطہ سوسائٹی کے زیر اہتمام سول سروس امتحان میں شریک ہونے والے خواہشمندوں کے لئے منعقدہ ورکشاپ سے قبل عمائدین قوم سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 18 فیصد ہے لیکن مسلمان ملک کے ہر شعبے میں پچھڑا ہوا ہے ۔ مولانا فضل الرحیم مجددی جو ملک گیر سطح کی مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری بھی ہیں، نے اپنے خطاب میں ہندوستان کی انتظامیہ اور مختلف محکموں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جس قوم کی آبادی سات فیصد ہے اُس قوم کے 37 فیصد لوگ سیول سروسس میں پائے جاتے ہیں، جس قوم کی آبادی ایک اور دو فیصد ہے، اُس قوم کے چار اور پانچ فیصد سیول سروسس میں پائے جاتے ہیں، یعنی چھوٹی چھوٹی آبادی والی قوموں کے افراد ملک کے تمام انتظامیہ پر قابض ہیں اور مسلمان اپنی آبادی کے لحاظ سے کسی بھی جگہ پر نہ ہونے سے مسلم کمیونٹی کے نمائندگی نہیں ہوپارہی ہے۔
مولانا مجددی نے واضح کیا کہ جس قوم کی بھی مختلف محکموں اور انتظامیہ میں نمائندگی اپنی آبادی کے لحاظ سے کم ہوگی، اُس قوم کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ مولانا نے صاف کیا کہ کم ازکم جوڈیشیری، سیول سروسس اور میڈیا، ان تین میدانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانا بے حد ضروری ہے، اگر مسلمانوں نے اس طرف توجہ نہیں دی تو آنے والے دن مزید بدتر ہوں گے۔ مولانا نے کہا کہ جو قوم اپنی آبادی کے لحاظ سے ملک کے تمام محکموں میں اپنی نمائندگی کو برقرار (maintain) رکھے گا، اُس کمیونٹی کے ساتھ کبھی نا انصافی نہیں ہوسکتی۔
بھٹکل، مرڈیشور، منکی، ولکی اور دیگر پاس پڑوس کے علاقوں کے مختلف تعلیمی اور سماجی اداروں کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مجددی نے کہا کہ آپ بھلے کتنی مسجدیں تعمیر کریں، مدرسے اسکول اور کالجس بنائیں اور بھلے ہی کتنے فلاحی اور سماجی ادارے قائم کریں، لیکن جس میدان کو آپ نے خالی چھوڑ دیا ہے ، وہ میدان آپ کو بار بار تکلیف دے گا اور اس تکلیف کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمانوں نے اس خلاء کو پُر کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی ہے اور اسے اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا ہے۔ دیگر قومیں مختلف مقابلوں کے ذریعے سیول سروسس اور دیگر شعبوں میں اپنا غلبہ حاصل کررہے ہیں، لیکن مسلمان کافی غفلت کا شکار ہیں۔ مولانا نے مسلمانوں اور مسلم اداروں پر زور دیا کہ وہ اس خلاء کو پُر کرنے کی طرف توجہ دیں۔
پروگرام میں بھٹکل کے قاضی صاحبان مولانا عبدالرب خطیب ندوی، مولانا خواجہ معین الدین اکرمی مدنی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اراکین مولانا عبدالعلیم قاسمی اور مولانا الیاس جاکٹی ندوی موجود تھے۔ بھٹکل مسلم خلیج کونسل کے رکن حبیب اللہ محتشم نے نظامت کی اور کونسل کے سکریٹری جنرل عتیق الرحمن منیری نے صدارت کے ساتھ آخر میں شکریہ ادا کیا۔