گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان مزید 4 پائیدان پھسل گیا؛ اس سال 125 ممالک کی فہرست میں11واں مقام حاصل ہوا
نئی دہلی، 14/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) مرکز کی مودی حکومت پر اپوزیشن پارٹیاں اکثر عوام مخالف پالیسیاں بنانے اور بے روزگاری پھیلانے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ مودی راج میں امیروں کے مزید امیر ہونے اور غریبوں کے مزید غریب ہونے کا ڈیٹا بھی مختلف اپوزیشن پارٹی لیڈران کے ذریعہ پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ایک ایسا سروے سامنے آیا ہے جو حقیقی معنوں میں مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کررہا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2023ء یعنی بھوک کے تازہ عالمی انڈیکس میں ہندوستان مزید 4 پائیدان پھسل کر 111ویں مقام پر پہنچ گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2022ء کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان 107ویں مقام پر تھا۔ یہ گلوبل ہنگر انڈیکس 125 ممالک سے حاصل کردہ ڈیٹا پر مشتمل ہے اور ہندوستان کی بدتر حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نیپال ،پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے پڑوسی ممالک سے بھی پیچھے ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ میں بچوں میں تغذیہ کی کمی کی شکایت ہے جو کہ ۷؍ فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سال کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں ہندوستان کا اسکور28.7 فیصد بتایا گیا ہے جو کہ ملک کو ایسے زمرے میں لاتا ہے جہاں بھکمری کی حالت سنگین ہے۔دراصل ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ عالمی، مقامی اور قومی سطح پر بھوک کی وسیع شکل کی پیمائش اور ٹریک کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
اس انڈیکس کے مطابق ہندوستان کے دیگر پڑوسی ممالک کو دیکھیں تو پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال بھی ہمارے ملک سے بہتر حالت میں ہیں۔پاکستان 102 ویں ، بنگلہ دیش 81 ، نیپال 49؍ویں اور سری لنکا 60ویں مقام پر ہے۔واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی وزارت برائے خواتین و اطفال نے اس رپورٹ کو گزشتہ سال اور2021ءمیں بھی مسترد کر دیا تھا اور اس سال بھی حکومت نے اس کے طریق کار کو ناقص قرار دیتے ہوئے حسب روایت اسے مسترد کردیا ہے۔ وزارت نے کہا کہ عالمی بھوک کا حساب لگانے کیلئے جو طریقہ استعمال کیا گیا وہ درست نہیں ہے۔