کاروار: ضلع میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سرکاری راحت کاری غیر اطمینان بخش۔ عوام اورسماجی ادارے انجام دے رہے ہیں قابل ستائش خدمات
کاروار8/اگست (ایس او نیوز) ضلع شمالی کینرا میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جہاں ایک طرف عوام اور سماجی ادارے راحت کاری کے ضمن میں قابل ستائش خدمات انجام دے رہے ہیں اور عوام کو اپنی ذاتی دلچسپی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راحت پہنچانے کے لئے دن رات خدمات انجام دے ہیں۔ وہیں دوسری طرف سرکارافسران کی جانب سے کی جانے والے راحت کاری کے اقدامات غیر اطمینان بخش ہونے کی شکایات موصول ہورہی ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ موسلادھار بارش ہونے کی صورت میں قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کے لئے سرکاری محکمہ جات کو ہر لحاظ سے بنیادی اور لازمی ضروریات پورے کرنے کے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔لیکن تیاری کے طور پر بس ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس میں گرام پنچایت کے پی ڈی او، ریوینیو محکمے کے ولیج اکاؤنٹنٹ اور ریوینیو انسپکٹر کو شامل کیا گیا تھا۔سیلاب آنے کی صورت میں اس سے نمٹنے کے لئے تیارکی گئی اس ٹیم کے پاس کوئی لکڑی کی کشتی ہے اور نہ ہی کوئی ربڑ بوٹ ہے۔ لوگوں کی جان بچانے اور سیلابی علاقوں سے انہیں دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کے لئے کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ لوگوں کو کشتیوں میں لے جاتے وقت یا پانی سے بھرے ہوئے علاقوں میں جان کے تحفظ کے لئے فراہم کی جانے والی لائف جیکیٹس بھی ٹیم کو مہیا نہیں کیے گئے ہیں۔اہم ترین بات تو یہ ہے کہ سرکاری طورپر پیشگی انتظامات کیے جانے کی رپورٹس تو مانسون سے پہلے ہی اخبارات میں آتی رہیں، مگر جب حقیقی طور پر ندیاں ابلنے لگیں اور گاؤں کے گاؤں زیر آب آنے لگے تو سرکاری انتظامات کی پوری پول کھل گئی کیونکہ افسران کو اس بات کایقینی طور پر پوری طرح اندازہ ہی نہیں تھا کہ کن کن مقامات پر بارش اور سیلاب سے دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ جن متاثرین کو قریبی اسکولوں میں پناہ دی گئی ہے وہاں پر پچھلی ریاستی سرکار کی طرف سے طلبہ کو دئے جانے والے دوپہر کے گرم کھانے فراہم کئے گئے تھے، اب وہی اناج متاثرین کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جس سے موجودہ حکومت ہزیمت سے بچ گئی ہے۔عوام یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر طلبہ کے گرم کھانے کا اناج اسکولوں میں موجود نہ ہوتا تو پھر ریلیف کیمپ میں متاثرین کو بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی۔
سرکاری افسران کہتے ہیں کہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو قریبی اسکولوں اور آنگن واڈی مراکز میں منتقل کردیا گیا ہے اورریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ وہاں پہنچنے والے بے یار ومددگار متاثرین کے لئے نہ بچھانے کے لئے چٹائیاں ہیں اور نہ ہی اوڑھنے کے لئے کمبل اور چادریں ہیں۔سردی بخار تک کی معمولی دوائیں بھی موجود نہیں ہیں۔برسات اور سیلاب سے بجلی کنکشن منقطع ہوگیا ہے اور ریلیف کیمپ میں روشنی کے لئے سرکاری افسران کی جانب سے موم بتیاں تک مہیا نہیں کی گئی ہیں۔پینے کے لئے پانی گرم کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔راحت مراکز میں رکھے گئے لوگوں کا کہنا ہے کہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کے نامناسب انتظامات کے ساتھ راحت کیمپوں میں لاکر چھوڑ دیا گیا ہے اور سرکاری افسران ایسا جتارہے ہیں جیسا کہ ہم پر بہت ہی بڑا احسان کیا گیا ہے۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم لوگ بے آسرا اور بے گھر قسم کے لوگ نہیں ہیں، بلکہ سیلاب کی وجہ سے مشکل میں پھنسے ہوئے متاثرین ہیں۔ہم لوگ اپنے گھروں میں اچھی اور بہتر زندگی جینے والے افراد ہیں۔
عوام اس بات پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں کہ محکمہ موسمیات نے تو دو ہفتے پہلے ہی ساحلی اور گھاٹ کے علاقوں میں بہت ہی شدید برسات ہونے کی پیشین گوئی بھی کردی تھی۔اس کے باوجود سرکاری افسران نے صرف برسات، طوفان اور سیلاب کا انتظار کرنے کے سوا اس سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی پیشگی تیاری نہیں کی تھی۔حالت یہ ہے کہ کچھ چھوٹے چھوٹے دیہات زیر آب آنے کے بعد جزیروں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور سرکاری افسران کے پاس وہاں پہنچنے کے لئے نہ کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی اس کے انتظامات ہیں۔اس طرح اس ہفتے کی برسات نے ثابت کردیا کہ ہمارے سرکاری محکمہ جات بڑے پیمانے پر قدرتی آفت درپیش ہونے پر اس سے مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔