پابندی کے باوجود میڈیا خود احتسابی کے بجائے بی جے پی کا ایجنڈا ہی آگے بڑھا نے میں مصروف۔۔۔۔۔از: عبید اللہ ناصر
اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ کی جانب سے 14 اینکروں کے مباحثوں اور دیگر پروگراموں کے بائیکاٹ کو لے کر ملک میں متضاد خیالات سامنے آ رہے ہیں۔ مودی دور کی سب سے بڑی صفت یہی رہی ہے کہ پورا سماج ہی نہیں بلکہ خاندان تک دو حصّوں میں منقسم ہو گئے ہیں۔ ایک طبقہ نفرت کی حد تک مودی کا مخالف ہے تو دوسرا طبقہ جنون کی حد تک ان کا حامی ہے۔ میڈیا بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ یہ بات بھی سولہ آنے درست اور اظہر و من الشمس ہے کہ مودی سرکار کا میڈیا مینجمنٹ بے مثال ہے۔ 1975 میں ایمرجنسی کے زمانہ میں جب میڈیا پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں تب کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ حکومت نے میڈیا سے جھکنے کو کہا تھا لیکن میڈیا رینگنے لگی تھی حالانکہ اس زمانہ میں بھی کچھ اخبارات اور صحافی اپنے پیشے کی آبرو بچائے ہوئے تھے۔ انہوں نے جیل جانا پسند کیا تھا لیکن حکومت کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فہرست میں اولین نام ممتاز صحافی آنجہانی کلدیپ نیر کا لیا جاتا ہے۔ کئی اخبارات خاص کر ’انڈین ایکسپریس‘، ’دی ہندو‘، ’اسٹیٹسمین‘ وغیرہ نے بھی جھکنے سے انکار کر دیا، یہاں تک کہ اندرا گاندھی کے اپنے اخبارات ’نیشنل ہیرالڈ گروپ‘ نے بھی اپنی ناک اونچی ہی رکھی تھی۔ قومی آواز میں ہمارے سینئرز بتاتے تھے کہ کس طرح گروپ کے تینوں اخباروں نیشنل ہیرالڈ، قومی آواز اور نوجیون کے ایڈیٹرس نے طے کر لیا تھا کہ سنجے گاندھی کی خبر اور تصویر صفحہ اول پر نہیں شائع کی جائے گی، یہاں تک کہ سنجے گاندھی کی تصویر پر مشتمل اشتہار تک اڈوانس پیمنٹ ملنے پر بھی قبول نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن مودی دور میں ایمرجنسی کا باقائدہ نفاذ نہ ہوتے ہوئے بھی میڈیا کیا کردار ادا کر رہا ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں ممتاز صحافی آکار پٹیل نے کچھ چینلوں کی سرخیوں اور مباحثوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک طویل مضمون لکھا ہے کہ کس طرح حکومت کے اشاروں ہی نہیں بلکہ تحریری ہدایت کے تحت متعدد سنگین معاملات جیسے کورونا کی اموات، چین کی دراندازی، نوٹ بندی کے مصائب، مزدوروں کی بھگدڑ وغیرہ پر عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے دیگر موضوعات کو یا تو بحث کا حصہ بنایا گیا یا ان معاملات کو لے کر اپوزیشن، خاص کر کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دنیا بھر میں کورونا چاہے جس وجہ سے پھیلا ہو لیکن ہندوستان میں وہ تبلیغی جماعت کے کارکنوں سے پھیلا یہ بات عوام کی حلق میں اتارنے کے لئے چینلوں نے کیا طوفان بدتمیزی نہیں کھڑا کیا تھا یہ ابھی ہماری یادوں سے معدوم نہیں ہوا ہے۔ گذشتہ 13-12 برسوں سے میڈیا نے اپنا آر ایس ایس حامی چہرہ دکھانا شروع کر دیا تھا۔ یاد کیجئے 2 جی کوئلہ گھپلہ، ایشین گیمز وغیرہ میں ہوئی نام نہاد بدعنوانی کو لے کر چینلوں میں کیسی جنونی اور احمقانہ مباحثہ ہوتے تھے۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ بحث میں شریک چند لوگ اگر سچ بات کہتے تھے تو دوسرے دن مباحثوں میں انھیں بلایا ہی نہیں جاتا تھا۔ حکومت ضرور منموہن سنگھ کی تھی لیکن وہ اس معاملہ میں بے دست و پا لگنے لگی تھی۔ اس کے بعد انّا کی تحریک شروع ہوئی جو اول دن سے واضح تھا کہ آر ایس ایس کی تحریک ہے مگر چینلوں نے رات دن وہی سب خرافات دکھایا اور انّا ہزارے جیسے واہیات آدمی کو دوسرا گاندھی بنا دیا۔ اس کا سیاسی فائدہ آر ایس ایس کو ملا اور پہلی بار بی جے پی زبردست اکثریت سے بلا شرکت غیرے ملک پر قابض ہو گئی۔ یہ بھی میڈیا کا ہی کمال تھا کہ نریندر مودی نے آنجہانی بال ٹھاکرے سے ہندو ہردے سمراٹ ہونے کا تمغہ چھین لیا۔ اس کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ میڈیا خاص کر چینلوں نے اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس، اس کے سب سے بڑے لیڈر راہل گاندھی اور اسلام و مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی سپاری لے رکھی ہے۔ سپریم کورٹ تک ان چینلوں کی بے راہ روی پر ناراضگی ظاہر کر چکا ہے۔ کچھ اینکروں پر براڈکاسٹر کی تنظیم جرمانہ بھی عائد کر چکی ہے، مگر کسی نے بھی سدھرنے کا نام نہیں لیا۔ ان کی اس مجرمانہ صحافت کے پس پشت حکومت کی مرضی اور مالکان کا دباؤ تو ہے ہی، خود ان کے اندر بھی فرقہ پرستی کا جو زہر بھرا ہے وہ سب ابھر کر ان کے پروگراموں میں سامنے آتا ہے۔
حیرت ہے کہ اینکروں کے بائیکاٹ کو لے کر اپوزیشن کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ میڈیا کی آزادی پر حملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا مضحکہ خیز الزام سنجیدہ صحافی اور کچھ اینکر بھی لگا رہے ہیں جبکہ سیدھی سی بات ہے کہ یہ نہ ان پر کسی قسم کی پابندی ہے نہ ہی ان پر کسی قسم کی کوئی سختی، بلکہ سیدھی سی بات ہے کہ ہم آپ کے پروگراموں میں شریک نہیں ہوں گے۔ کانگریس کے سینئر ترجمان پون کھیڑا نے اسے مہاتما گاندھی کا ترک موالات بتایا ہے۔ ظاہر ہے بی جے پی کو ان اینکروں کی حمایت میں آنا ہی تھا۔ اس نے ایمرجنسی کی یاد دلاتے ہوئے کانگریس پر میڈیا کا گلا گھونٹنے کا الزام لگا دیا۔ ٹھیک یہی الزام ان چینلوں کی تنظیم کی جانب سے جاری کئے گئے پریس نوٹ میں بھی دوہرائے گئے ہیں۔
پریس کی آزادی جمہوریت کی بقا کی اولین شرط ہے لیکن کیا ہندوستانی پریس واقعی آزاد ہے؟ کیا اس کی آزادی کا پیمانہ اس کے ذریعہ اپوزیشن کے خلاف چلائی جا رہی اس کی مہم سے لگایا جائے گا؟ یا حکومت سے سوال پوچھنے کی آزادی حکومت کو ایکسپوز کرنے کی آزادی، عوامی مسائل اٹھانے کی آزادی، عوام کے کھڑے ہونے کی آزادی سے لگایا جائیگا؟ یا پریس کی آزادی کے نام پر ملک کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونکنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سماج کو متحد کرنا پریس کا فرض ہے یا منقسم کرنا؟ کبھی پریس کو مستقل مخالف کہا جاتا تھا، یعنی سرکار چاہے جس پارٹی کی ہو اس پر نظر رکھنا، اس کی غلطیوں کو اجاگر کرنا، اس سے سوال پوچھنا میڈیا کا فرض ہوتا، مگر اب ہندوستانی میڈیا اپوزیشن سے سوال کرتی ہے اور حکومت کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتی ہے۔ ہندی فلم انڈسٹری کبھی سیکولرزم کا مضبوط قلعہ ہوا کرتی تھی۔ نہ صرف اپنی نجی زندگی میں انڈسٹری کے فنکار اور دیگر ارکان ہر طرح کی تفریق سے بلند تھے بلکہ ان کی فلمیں بھی سماج کو بھائی چارہ، اتحاد اور محبت کا پیغام دیتی تھیں۔ لیکن اب ’دی کشمیر فائلس‘ اور ’دی کیرالہ اسٹوری‘ جیسی فلمیں بنا کر سماج میں تفرقہ اور نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ غنڈہ موالی اور بدعنوانی کا کردار مسلمان ہوگا اور اس کا خاتمہ کرنے والا افسر ہندو ہوگا۔ اس طرح مسلمانوں کی ایک منفی امیج بنائی جاتی ہے۔
میڈیا کی اسی چاپلوسی، سرکار پرستی، نفرتی ایجنڈہ اور بے ریڑھ کا ہو جانے کی وجہ سے عالمی رینکنگ میں ہندوستانی میڈیا نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اس گراوٹ میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہندوستانی میڈیا کی رینکنگ 180 ممالک میں 161ویں مقام پر ہے۔ یہ وہ میڈیا تھی جس نے برٹش سامراج کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ مولوی باقر نے پھانسی قبول کی تھی مگر قلم کا تقدس نہیں مٹنے دیا تھا۔ جنگ آزادی کے دور میں ہر زبان کے ان گنت صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھکمری کا شکار رہے، پھٹے کپڑوں اور بھوکے پیٹ رہ کر بھی اپنے قلم کو تلوار بنائے رکھا۔ آزادی کے بعد بھی گو کہ کچھ ناپسندیدہ واقعات ہوئے لیکن مجموعی طور سے میڈیا آزاد ہی رہی، لیکن اب میڈیا نے جو رخ، رویہ اور طرز عمل اختیار کیا ہے وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ قریب 35 سال سے اس پیشے میں رہنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ اور اب جب اپوزیشن نے اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے تو بہتر ہوتا کہ میڈیا خود اپنا محاسبہ کرتا اور سوچتا کہ ملک کی 60 فیصد سے زائد عوام کی نمائندہ جماعتوں کو اس پر عدم اعتماد کیوں ہے۔ اپوزیشن کے اس انتہائی قدم کے باوجود بھی یہ میڈیا اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے حکومت اور حکمران پارٹی کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ان کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہ صرف درست بلکہ حق بجانب بھی ہے۔
(مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں، جس کا ادارے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)