ذاتوں کی بنیاد پر ہونےوالی مردم شماری کی رپورٹ چاٹ رہی ہے دھول، آخرکب ہوگا نفاذ؟ خصوصی رپورٹ: مدثراحمد
بنگلورو، 30/اگست; بنگلوروسال2015 میں سدرامیا کی قیادت والی حکومت نے ریاست میں مختلف ذاتوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کیلئے ذاتوں کی بنیادپرمردم شماری یعنی کاسٹ سینسس کروایا تھا،جس کی حتمی رپورٹ اُسی سال حکومت کے حوالے کردی گئی تھی۔ مگر تشویشناک پہلویہ ہےکہ آٹھ سال گزرنے کے باوجود کرناٹک میں کاسٹ سینسس کو منظرعام پر نہیں لایاگیا نہ ہی اس رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کیلئے پہل کی گئی ہے۔1935 کے بعد کرناٹک میں پہلی دفعہ2015 میں کاسٹ سینسس کا انعقادکیاگیاتھا،اس سینسس کے دوران1کروڑ35 لاکھ خاندانوں کا جائزہ لیاگیا،جس کیلئے قریب ایک سرکاری ملازم کو اس کا م کو انجام دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
بیک ورڈ کلاس کمیشن کی جانب سے اس سینسس کو انجام دیاگیاتھا اوراس سینسس کی سربراہی کمیشن کے کانتاراجونے انجام دی تھی۔ کانگریس حکومت کی طرف سے کروائے گئے اس سینسس کیلئے قریب168 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے۔ریاست میں80 سال بعد ذاتوں کی بنیادپر کروائے جانےوالے اس سینسس کے بعد اوبی سی، ایس سی، ایس ٹی، مائناریٹیس میں اس بات کی اُمید جاگی تھی کہ حکومت اس سینسس کے بعد ان کی فلاح وبہبودی کیلئے کام کریگی، مگر2018 میں انتخابات کے پیش نظر وزیراعلیٰ سدرامیانے اس رپورٹ کو پیش کرنے سے گریز کیا۔ سدرامیا یہ سوچ رہے تھے کہ اس رپورٹ کے منفی اثرات ان کے الیکشن پر نہ پڑے۔2018 اور2019 کے درمیان جب ریاست میں مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی،اُس دوران بھی کاسٹ سینسس کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی تھی،اب2023 میں سدرامیا کی قیادت والی کانگریس حکومت پھرایک مرتبہ اقتدارمیں ہے،باوجوداس کے اس سینسس رپورٹ پر کسی بھی طرح کا بیان جاری نہیں ہواہے۔
ریاست میں کاسٹ سینسس کے جاری نہ ہونے کی وجہ سےایس سی ایس ٹی،اوبی سی اور مائنارٹیس کے حقوق کو صحیح طریقے سےجاری کرنے میں دشواریاں ہورہی ہیں،خاص طورسے اقلیتوں میں، جس میں سب سے اکثریت مسلمانوں کی ہے،اُنہیں اس کا خمیازہ اٹھانا پڑرہاہے۔اگر اس دفعہ بھی حکومت کاسٹ بیس سینسس کے مطابق پیش کی جانےوالی سفارشات کوعملی جامہ نہیں پہنا تی ہےتو اس کا نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑسکتاہے۔وہیں دوسری جانب جسٹس سچرکمیٹی کی سفارشات اب بھی ریاست میں پوری طرح سے نافذ نہیں ہوئی ہیں،ریاست میں مائنارٹیس کو ایجوکیشن ریزرویشن میں اضافہ،روزگارمیں ریزرویشن،سوشیو ایکنامک رائٹس جیسے معاملات میں اب بھی ریاستی حکومتیں پوری طرح سے اقلیتوں کواستفادہ نہیں پہنچا سکی ہیں،اس سلسلے میں ریاست کے قدآوارلیڈران، سماجی کارکنان، عوامی نمائندے اوردیگرفلاحی تنظیمیں توجہ نہیں دیتے ہیں تو اس کا خمیازہ اقلیتوں کو ہی اٹھانا پڑیگا۔
(مضمون نگار شموگہ سے شائع ہونے والے اُردو روزنامہ آج کا انقلاب کے ایڈیٹر ہیں)