جب توپ ہوسامنے توکیمرہ نکالو۔۔۔۔۔۔از:مدثراحمد،شیموگہ، کرناٹک
جب بھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور مسلمانوںپر ظلم ہوتاہے،مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے ہیں،مسلمانوں کو بدنام کیاجاتاہے،ایسے وقت میں میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنےاور مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا،مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑے ہونا ہی آج میڈیا کا شیوابن چکاہے۔اسی طرح سے پولیس بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر جب کبھی ظلم ہوتاہے تو وہ اقلیتوں کی تائیدمیں کھڑے ہونے کے بجائے فرقہ پرستوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے اور ظلم ڈھانے کے جتنے طریقےہیں اُن طریقوں پر عمل کرناان کا اولین فرض بن جاتاہے۔پچھلے کئی سالوں سے ہم ان حالات میں ایک ہی بات سنتے آرہے ہیں کہ میڈیا مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے،میڈیامسلمانوں کی آواز نہیں بنتاہے،میڈیامسلمانوں کو ہی ٹارگیٹ کرتاہے،وہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلندکرتاہے اور اقلیتوں کو بدنام کرتاہے۔ایسے ہی پولیس پر بھی الزام لگایاجاتاہے کہ پولیس مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کرتی ہے اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔بات یقیناً صد فیصد درست ہےکہ اس وقت بھارت کا میڈیا نہ مسلمانوںکے ساتھ ہے نہ ہی پولیس مسلمانوں کی پشت پناہی کرتی ہے کیونکہ جب پولیس اور میڈیامیں مسلمانوں کا ساتھ دینےوالے ہونہیں سکتے کیونکہ مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کیلئے بھی آج فرقہ پرست طاقتیں میڈیا کو عمل میں لارہے ہیں اورمیڈیا کا ساتھ دے رہےہیں۔آر ایس ایس ہویا پھریہودی طاقتیں یہ جان چکی ہیں کہ اگر توپ ہو تو مقابل تو تلواراٹھانے کے بجائے اخبارنکالناہے۔آج اسی سمت میں یہ لوگ کام کرتے کرتے اس قدر آگے آچکے ہیں کہ وہ باقاعدہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیاکو بڑھاوادے رہے ہیں۔لاکھوں کروڑ وں روپیوں میڈیاپر خرچ کررہے ہیں،وہ یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ان کے لاکھوں کروڑوں روپیوں کے انوسٹمینٹ سے انہیں کیا پرافٹ ملے گا،بلکہ یہ لوگ اس بات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں کہ اس میڈیاکے ذریعے سے وہ کیسے راج کرسکتے ہیں ،حق کو ناحق اورناحق کو حق میں کیسے تبدیل کرسکتے ہیں۔انہیں میڈیاکے انوسٹمینٹ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے،بلکہ وہ چاہیں تو اور بھی کئی میڈیا ہائوز اپنے ایجنڈوں کو نافذ کرنے کیلئے شروع کرسکتے ہیں۔مگر افسوس کامقام یہ ہے کہ مسلمان ان چیزوں کو سمجھنے سے قاصرہےاور ان کے پاس میڈیا کو لیکرکوئی خاص یا مستقل ایجنڈا نہیں ہے۔اگر اُنہیں سچائی پیش کرنےوالابے باک اور بے خوف میڈیا بنانے کیلئے انوسٹمینٹ کرنے کیلئے کہاجاتاہےتو سب سے پہلا ان کا یہ سوال ہوتاہے کہ اس میں ریٹرن پرافٹ(Return Profit)کیاہوگا؟ اور انہیں کیا پوزیشن دی جائیگی؟یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ جو قوم اپنی حفاظتیں بھی صرف ثواب اور جنت کیلئے کرتی ہے وہ قوم کیابے فائدہ میڈیاکیلئے انوسٹمینٹ کریگی۔جب تک مسلمان فائدے اور نقصان کا حساب کرتے رہیں گے تو اُس وقت تک مسلمانوں کو ایسی ہی کچلا جاتارہے گا۔صرف میڈیاکی ہی نہیں بلکہ مسلمان اپنے تعلیمی ادارے بھی بڑے پیمانے پر بنا سکتے ہیں ،لیکن وہاں بھی سوال یہ اٹھتاہے کہ اس میں ریٹرن بھی کتنے دنوں میں ملے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایسے میڈیا ہائوز کی تائید کریں جو سماج کو صحیح و غلط کی پہچان بتاتے ہیں،بے باک وبے خوف ہوکرلوگوں تک صحیح خبریں پہنچاتے ہیں۔اگر اب بھی مسلمان ان باتوں سے سبق نہیں سیکھتے ہیں تو ان کا مستقبل تاریکی میں ہی جائیگا،اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج شرپھیلانےوالے صحافیوں کو سنگھ پریوارجیسی تنظیمیں ہر طرح کی مددکررہے ہیں اور اُنہیں انعامات و اعزازت سے نوازتے ہیں۔وہیں دوسری جانب مسلمان اپنے ہی صحافیوں سے بد ظن ہوجاتے ہیں اور مسلمانوں کو عقل بولنےپر اُن کے گھر خالی کروانے کیلئے تیارہوجاتے ہیں۔وقت آگیاہے کہ مسلمان اپنی عقل کو لگائیں اورمیڈیاکو فروغ دیں۔