بنگلورو، 18/ مئی (ایس او نیوز) ریاستی حکومت کرناٹک میں ذات پر مبنی مردم شماری کے حوالے سے فیصلے میں محتاط رویہ اپنا رہی ہے اور امکان ہے کہ سوشیواکنامک اینڈ ایجوکیشنل سروے پر بحث کو اس وقت تک مؤخر کیا جائے گا جب تک اندرونی ریزرویشن (ایس سی) سے متعلق سروے مکمل نہ ہو جائے۔ اس سروے کو عام طور پر ذات مردم شماری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، کابینہ میں اس مسئلے پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث حکومت نے اب تک اس پر دوبار غور ملتوی کیا ہے۔ وزیر قانون ایچ کے پاٹل نے حالیہ بیان میں عندیہ دیا ہے کہ یہ معاملہ کابینہ کی آنے والی میٹنگ میں زیر غور لایا جائے گا۔
تاہم، کانگریس کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ میں اس معاملے پر فوری طور پر اتفاق رائے پیدا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ سدارامیا مسلسل اس مسئلے کو آگے بڑھانے پر زور دے رہے ہیں، لیکن اب تک 20 سے زائد وزراء نے اس پر کوئی واضح موقف نہیں اپنایا ہے۔ جن چند وزراء نے رائے دی بھی ہے، وہ بظاہر اس سروے کی تائید کر رہے ہیں۔ ایک جانب کابینہ کے اندر اختلافات موجود ہیں، تو دوسری جانب پارٹی کے اندرونی حلقوں سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔
میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے، کانگریس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے انکشاف کیا کہ ذات پر مبنی سروے کے خلاف مختلف سطحوں پر مخالفت سامنے آئی ہے، جس میں مذہبی لیڈران، سیاسی شخصیات، سماجی تنظیمیں اور عام شہری شامل ہیں۔ ان کے مطابق حکومت اس الجھن میں مبتلا ہے کہ وہ سروے کو جاری رکھے یا ترک کر دے، کیونکہ اس پر اب تک خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے۔ کئی سینئر لیڈروں نے بھی اس رپورٹ پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے، کیونکہ یہ رپورٹ دس سال پرانی ہے اور موجودہ حالات سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں سمجھی جا رہی۔ انہوں نے کہا، "ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے کو فوری طور پر زیر غور نہیں لائے گی اور ممکنہ طور پر مزید تاخیر ہوگی۔" دریں اثنا، وزیر ٹرانسپورٹ اور کانگریس کے سینئر لیڈر رام لنگا ریڈی، جنہوں نے وزیر اعلیٰ کو تحریری طور پر اپنی رائے دی ہے، نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ کئی خاندان سروے میں شامل نہیں کیے گئے۔ ان کے بقول، "بعض افراد نے مکمل سروے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ریڈی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابی فہرستوں میں ناموں کا اندراج اور ترمیم کرتا ہے، ویسا ہی طریقہ کار یہاں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، "الیکشن کے بعد بھی ایسے افراد کی درخواستیں قبول کی جاتی ہیں جن کا نام فہرست میں شامل نہیں ہوتا، اور ان کے اندراج کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ہم بھی اسی طرز پر عوام یا خاندانوں کو ترغیب دے سکتے ہیں کہ اگر انہیں لگے کہ ان کا نام سروے میں شامل نہیں ہوا تو وہ متعلقہ حکام سے رجوع کریں۔" تاہم ریڈی نے خبردار کیا کہ یہ ایک سست رفتار اور وقت طلب عمل ہو گا۔ انہوں نے کہا، "اگر حکومت آمادہ ہو جائے تو اس عمل میں کم از کم دو ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ ایک بار یہ مرحلہ مکمل ہو جائے تو کابینہ میں اس پر غور ممکن ہو سکے گا۔"
انہوں نے مزید کہا۔ ادھر حکومت نے اقتدار میں دو سال مکمل ہونے کی خوشی میں وجئے نگر کے ہو سپیٹ شہر میں "سادھنا سماویش" کے نام سے ایک بڑے عوامی اجتماع کا انعقاد کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب کابینہ میں رد و بدل کی قیاس آرائیاں جاری ہیں، کچھ وزراء اپنی وزارت بچانے کے لیے دہلی روانہ ہو چکے ہیں تاکہ پارٹی قیادت سے براہ راست بات کر سکیں۔ دوسری جانب، کئی ایم ایل ایز بھی سرگرم ہو گئے ہیں اور کابینہ میں شامل ہونے کے لیے سیاسی لابنگ میں مصروف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پارٹی ہائی کمان منظوری دے دے تو حکومت چند غیر فعال اور متنازع وزراء کو کابینہ سے برطرف کر سکتی ہے۔
کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر ایچ انجنیا نے جمعہ کو کہا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے درج فہرست ذاتوں کے اندرونی ریزرویشن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے اس مطالبے پر قدم اٹھاتے ہوئے ایس سی طبقات کی ذیلی ذاتوں کے سروے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ سب کو مساوی نمائندگی دی جا سکے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ درج فہرست ذات (ایس سی) کی تقریباً 101 ذیلی شاخیں ہیں، اور اگر حکومت واقعی اندرونی ریزرویشن کا منصفانہ نظام لانا چاہتی ہے تو لازمی ہے کہ اس سروے میں ہر ذیلی ذات کا احاطہ کیا جائے۔ انجنیا نے یاد دلایا کہ ماضی میں ایس ایم کرشنا کی قیادت والی حکومت نے سداشیوا کمیشن تشکیل دیا تھا تاکہ ایس سی طبقات میں ریزرویشن کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جا سکے، مگر بدقسمتی سے اس کی سفارشات کو اب تک نافذ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعلیٰ سدارامیا اندرونی ریزرویشن سے متعلق پائے جانے والے ابہام کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں، اور اسی لیے انہوں نے اس خصوصی سروے کا حکم جاری کیا۔ انجنیا نے کہا، "یہ سروے 17 مئی تک مکمل کیا جانا ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ حکومت تمام پسماندہ دیہی علاقوں کو بھی شامل کرنے کے لیے آخری تاریخ میں توسیع کرے۔" ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ریاستی حکومتیں قانونی طور پر اس طرح کے ریزرویشن میں ترمیم یا اضافہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔