مجوزہ نئے قانون سے گھبراکربھٹکل کے بینکوں سے ڈپازٹ رقم نکالنے کا سلسلہ تیز۔جعلی کمپنیوں کا جال عروج پر؛ کئی گھوٹالے منظر عام پر آنے کے بائوجود عوام کا جعلی کمپنیوں پر بھروسہ
بھٹکل 6؍فروری (ایس او نیوز) مرکزی حکومت کی طرف سے بینک کاری کے شعبے میں لائے جارہے فینانشیل ریسولیوشن اینڈ ڈپازٹ انشورنس (FRDI)بل کے تعلق سے خدشات اور افواہوں کی بنیا دپر بھٹکل کے بینکوں میں جمع رکھی گئی بڑی بڑی رقمیں کھاتے دار وں کی جانب سے نکالے جانے کا سلسلہ تیزہوگیا ہے ، جس سے نیشنلائزڈ بینکوں کے منیجرز اور منتظمین حیرت اورالجھن میں پڑ گئے ہیں۔
نکالے گئے 98کروڑروپے!: ایک جائزے کے مطابق گزشتہ 3مہینوں میں بھٹکل کے 20بینکوں سے کھاتے داروں نے تقریباً 98کروڑ روپے نکالے ہیں۔اور یہ سب ان خبروں کی وجہ سے ہوا ہے جس کے مطابق ایف آر ڈی آئی بل کے مسودے پر مرکزی حکومت سنجیدگی سے غور کررہی ہے او ر اسے لاگو کرنے کے سلسلے میں جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا جس کے بعد بینکوں میں رقم جمع رکھنے کا مطلب کسی بھی وقت اپنی رقم سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہوگا۔
بڑے منافع کا لالچ: سنڈیکیٹ بینک بھٹکل کے منیجر محمد روشن کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ بل کے نقصانات کے بارے میں افواہوں پر یقین کرتے ہوئے گاہک نیشنلائزڈ بینکس سے رقم نکال کر بے نامی (جعلی) اداروں میں اپنا سرمایہ لگارہے ہیں۔ بڑے منافع کا لالچ دے کرگاہکوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب کا معاملہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ کسی بھی قسم کی شفافیت نہ رکھنے والے ایسے اداروں میں سرمایہ کاری کرنے والے گاہکوں کے لئے بالآخر اپنے اصل سرمایے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھنے کا موقع آسکتا ہے۔
مجوزہ بل کا منفی پہلو: لیکن مرکزی حکومت نے جو ایف آر ڈی آئی بل کا مسودہ اگست 2017میں پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس کے قانون بن جانے پر بینک میں رقم ڈپازٹ رکھنے والوں کے لئے اس لحاظ سے بھی خطرہ ہے کہ اگر کوئی بینک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو اپنی مالی حالت سدھارنے کے لئے کھاتے داروں کی ر قم وہ بینک اپنے طور پر استعمال کرسکتا ہے اور رقم واپس لوٹانے کے سلسلے میں بینک اپنے طور پرہی میعاد طے کرسکتا ہے(جسے بینکنگ کی اصطلاح میں bail in کہاجاتاہے)یعنی ایسی صورت میں گاہک اپنی مرضی سے رقم واپس نکال نہیں سکے گا۔جبکہ اس سے پہلے والے قانون میں دیوالیہ ہونے والے بینکوں کو بچانے کے لئے سرکار کی طرف سے مالی پیکیج دیا جاتاتھا (جسے بینکنگ کی اصطلاح میں bail out کہا جاتا ہے)۔مطلب یہ ہے کہ سرکار اپنا بوجھ اب بینک کے گاہکوں پر منتقل کرنا چاہتی ہے۔
منفی خبروں کا اثر: حقیقت یہ ہے کہ بھٹکل کے قریب دس ہزار افراد بیرونی ممالک میں روزگار اور تجارت سے منسلک ہیں۔ ان کی اپنی کمائی اور بچت یہاں کے بینکوں میں کروڑوں روپیوں کی شکل میں جمع ہے۔ایسے میں جب یہ خبر عام ہوگئی کہ بینکوں میں جمع رقم پر اب سرکار کا کنٹرول رہے گااور کھاتے دار اپنی مرضی سے رقم نکال نہیں پائیں گے توعوام کا گھبراہٹ میں مبتلا ہونا فطری عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کی بڑی بڑی رقومات بینکوں میں جمع تھیں وہ اپنے کھاتے سے رقم نکالنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔
جعلی کمپنیوں کا جال: اس معاملے میں دوسرا خطرناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ سرکاری تحویل میں جانے کے ڈر سے جو کھاتے دار اپنی بڑی بڑی رقومات بینکوں سے نکال رہے ہیں ان میں سے اکثر افرادکے بارے میں یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ وہ جعلی کمپنیوں کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ بینکوں میں جو رقم جمع رہتی ہے اس میں ایک لاکھ روپے پر سود کی شکل میں 8تا9ہزار روپے سالانہ ملتے ہیں جبکہ بے نامی کمپنیاں ایک لاکھ روپے پر سالانہ 38ہزار روپے دینے کا لالچ دیتی ہیں۔ کچھ کمپنیاں ایک لاکھ روپے سرمایہ پر ماہانہ 10تا 12ہزار یا اس سے زائد منافع دینے لگی ہیں۔بعض ادارے10لاکھ روپے سرمایہ لگانے پر روزانہ 9ہزار روپے میں کھاتے میں جمع کرنے کا بھروسہ دلاتے ہیں۔چونکہ یہاں کے ایک طبقے میں سود کا پیسہ استعمال نہ کرتے ہوئے منافع میں حصے داری کا رواج چل رہا ہے، جس کا فائدہ بے نامی؍ جعلی کمپنیاں اورادارے اٹھارہے ہیں جوکہ باقاعدہ رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتے۔ اور ان کے پاس سرمایے کے طور پر جمع کی گئی رقم کہاں اور کس مقصد سے استعمال کی جارہی ہے، اس کے بارے میں خود کھاتے داروں کو کوئی علم نہیں رہتا۔
بے جالالچ میں نہ آئیں: اس پس منظر میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے ریجنل منیجر راجیش پرکاش کا کہناہے کہ: نیشنلائزڈ بینکوں میں آپ کی رقم محفوظ ہوتی ہے۔ عوام افواہوں پر دھیان نہ دیں اور گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں۔ خواہ مخواہ کے لالچ میں نہ آئیں۔کچھ بے نامی فنانس کمپنیاں جس شرح پر منافع کا بھروسہ دلارہی ہیں وہ کسی طور بھی ممکنہ بات نہیں ہے۔کچھ دنوں تک عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد پورے سرمایے کے ساتھ ان کالاپتہ ہوجانا یقینی بات ہے ۔ جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔اس سے سبق لیتے ہوئے اپنے سرمایے کو محفوظ رکھنے پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔
ایک سچائی یہ بھی ہے کہ بڑے منافع کے لالچ میں جن جعلی کمپنیوں میں سرمایہ لگانے کا سلسلہ شہر میں چل پڑا ہے ان میں سے دو ایک کمپنی کے بند ہونے یا قانونی مسائل میں گھر جانے کے بعدکچھ لوگوں کی کافی بڑی بڑی رقمیں ڈوبنے کی سرگوشیاں ادھر ادھر سے سنائی دینے لگی ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں اور جلد ہی ایک بہت بڑے نئے مالی گھوٹالے کا شور بلند ہونے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ بھٹکل کے عوام اس سے قبل سمینٹ گھوٹالہ، بیڈ گھوٹالہ، زیورات گھوٹالہ اور تربوز گھوٹالہ میں کروڑوں روپیوں کا دھوکہ کھاچکے ہیں، مگر گھر بیٹھے کمائی کا معاملہ سامنے آتے ہی نئے لالچ میں پھر پھنستے نظر آرہے ہیں۔ اس تعلق سے بھٹکل کے علماء بیانات بھی دے رہے ہیں کہ جو لوگ سرمایہ جن کمپنوں کو لگار ہے ، اُس کی پہلے جانچ کریں کہ جو کمائی یا فائدہ دیا جارہا ہے وہ جائز بھی ہے یا نہیں۔