تحریک ادب اسلامی کے عظیم المرتبت شاعر جناب ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ کا انتقال پرملال تحریر: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
بھٹکل19؍ستمبر (ایس او نیوز) دنیائے اردو ادب میں اسلامی افکار و تصورات کی ترویج و اشاعت کے لئے سرگرم قافلۂ ادب اسلامی کے عظیم المرتبت شاعر و ادیب جناب ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ بھٹکلی نے کچھ عرصے تک ضعف و پیرانہ سالی سے متعلقہ علالت کا شکار رہنے کے بعد 84سال کی عمر میں آج داعئ اجل کو لبیک کہا۔ بعد نماز ظہر جامعہ مسجد میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور بھٹکل کے قدیم قبرستان میں ان کے سیکڑوں چاہنے والوں کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔
ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ مرحوم نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ وطن عزیز میں گزارا۔ ایک مدت تک وہ میڈیکل پریکٹس بھی کرتے رہے۔ کچھ برسوں تک انہوں نے اسلامیہ اینگلور اردو ہائی اسکول میں بحیثیت اردو ٹیچر بھی خدمات انجام دیں۔لیکن تعمیری اور مقصدی ادب کے حوالے سے ان کی شناخت فکر اسلامی کے علمبردار شاعر کی تھی۔ بھٹکل کے ادبی منظر نامے اور خاص شعرو سخن کے محاذ پر مرحوم فطرتؔ صاحب نے فکری تطہیر اور عمدہ ادبی ذوق پروان چڑھانے کا جو کام مسلسل انجام دیا ہے اور اپنا خونِ جگر اس سمت میں جس طرح صَرف کیا ہے ، اسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ حمد، نعتیں،غزلیں ، نظمیں، ترانے جو بھی تخلیقات ان کے قلم سے نکلتیں وہ تخیل کی بلندی، فکر کی پاکیزگی اور زبان و بیان کی عمدگی کا نمونہ ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے فن پاروں کی قدر کرنے والوں میں مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ؒ جیسی شخصیت بھی شامل تھی۔
ایک دور وہ تھا جب ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ مرحوم نے بھٹکل میں’ کاروانِ سخن ‘کے نام سے ادبی ادارہ قائم کیا تھا اورنفیرِ فطرت کے نام سے مجلہ بھی شائع کیاکرتے تھے۔ اس حوالے سے وہ نئے فنکاروں کی فکری و فنی تربیت کا اہتمام کیاکرتے تھے۔ اس وقت ان کے شاگردوں کا ایک جمگھٹا تھا جو بھٹکل کی شعری مجلسوں کی رونق بڑھایا کرتا تھا۔ مگر آگے چل کران میں سے چند ایک شاگرد ہی مشق سخن کا سلسلہ جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھٹکل کے تقریباً تمام معروف شعرأنے براہ راست یا بالواسطہ کسی نہ کسی درجے میں جناب فطرتؔ مرحوم سے فیض حاصل کیا ہے۔
ایک زمانے میں جب انجمن کالج کے پروفیسررشید کوثر فاروقی،ڈاکٹرانورعلی صاحب، مولانا منصور علی ندوی، عمر حیات خاں غوری، قریشی صاحب، پاشا صاحب، افضل خاں صاحب، لوہانی صاحب وغیرہ کے علاوہ جامعہ اسلامیہ کے مولانا ارشاد صاحب، مولانا حافظ کبیرالدین صاحب، مولانا خالد غازیپوری صاحب اور دیگر علمائے کرام کی موجودگی میں خصوصی نشستیں شعری نشستیںیا عام مشاعرے ہوتے تھے فطرتؔ صاحب اپنے معیاری کلام کی وجہ سے محفل پر چھا جاتے تھے۔ بھٹکل کا وہ سنہرا ادبی دور اب شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملے گا۔
ڈاکٹر محمد حسین فطرتؔ کے چھ مجموعہ ہائے کلام سخن ساغرِ عرفان، سخنِ دلنواز، سازِ ازل، گلبانگ فطرت، افق اعلیٰ اور نور علی نورکے علاوہ ایک نثری تصنیف مضامینِ فطرت کے عنوان سے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر باذوق قارئین سے داد وتحسین حاصل کرچکے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے سرفراز فرمائے۔ پس ماندگان کو صبر جمیل عطاکرے۔ اور ان کے اپنے الفاظ میں ان کی اس دعا کوقبول فرمائے کہ:
اوروں کی دعا تو اور سہی، میری تو دعا ہے بس اتنی
فطرتؔ کو عطا ہو قرب نبیؐ، جنت کے حسیں گلزاروں میں