بیوٹی پارلر سے ہوٹل کے کمروں تک ’گلابی گینگ‘ کا دربار۔کاروارسمیت ساحلی علاقوں میں چل رہاہے جسم فروشی کاکاروبار!
کاروار 19؍اگست (ایس او نیوز) کاروارسمیت ساحلی علاقوں میں کہیں بیوٹی پارلر کے نام پر یا پھر کہیں ہوٹل کے کمروں میں ’گلابی گینگ‘ نے جسم فروشی کاکاروباردھڑلے سے چلا رکھا ہے۔جسم فروشی کے اس جال کو ’گلابی گینگ‘ اس لئے کہاجارہا ہے کیونکہ اس کی دلالہ یا سرغنہ کانام گلابی نائک ہے جوخود کو ایک سماجی خدمت گار اور سماجی کارکن کے طورپر پیش کرتی ہے۔
کاروارکی ’گلابی گینگ‘ میں نوجوان لڑکیاں اور خواتین یا توغربت اور افلاس کی وجہ سے پھنس جاتی ہیں یا پھر موج مستی کے شوق میں اس گینگ میں شامل ہوجاتی ہیں۔کہاجاتا ہے کہ بڑ ے شہروں میں جس طرح ہائی ٹیک طریقے سے جسم فروشی کا کاروبار چلایا جاتا ہے بالکل اسی انداز میں کاروار اور ساحلی علاقے کے دوسرے شہروں میں گلابی گینگ اپنا دربار چلارہی ہے ۔پتہ چلاہے کہ کاروارشہر کے تین چار ہوٹل اس گینگ کے اڈے بنے ہوئے ہیں جہاں پہلے ہی سے کمرے بک رہتے ہیں اور یہیں سے جسم فروشی کے لئے گاہک تلاش کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ شہر کے کچھ بیوٹی پارلرس کے ساتھ بھی اس گینگ کا رابطہ ہے اور وہاں سے بھی گاہک کو لڑکیاں فراہم کی جاتی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اس گلابی گینگ کے لئے کچھ دلال بھی پوری طرح سرگرم ہوتے ہیں۔
17اگست کو کاروار کے ایک ہوٹل پر چھاپہ ماری کے بعدپولیس کے ہاتھ لگنے والی جونوجوان لڑکیاں جسم فروشی کے ریکیٹ میں شامل بتائی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی کاروار شہر کی رہنے والی نہیں ہے۔ ان میں سے ایک کے بارے میں معلوم ہواہے کہ وہ یلاپور کے گولّا پور کی رہنے والی ہے اور بقیہ چار میں سے دو کا تعلق ہبلی سے ہے ۔ ایک لڑکی دھارواڑ اور ایک لڑکی بیجاپور کی رہنے والی ہے۔ان لڑکیوں کو گلابی نے اپنے جال میں پھانس رکھا تھا اور گاہکوں سے معاملہ طے کرکے انہیں جسم فروشی کے لئے پیش کیا کرتی تھی۔
ایسا نہیں ہے کہ کاروار شہر کی لڑکیاں گلابی گینگ میں شامل نہیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ گلابی نائک اپنی گینگ میں شامل کاروار کی لڑکیوں کوکاروار میں دھندے کے لئے استعمال نہیں کرتی بلکہ انہیں انکولہ ، گوکرن اور مرڈیشور وغیرہ کے ہوٹلوں میں بھیج دیتی ہے۔اور دوسرے اضلاع اور شہروں سے آنے والی لڑکیوں کو کاروار میں رکھتے ہوئے اپنا دھندہ چلاتی ہے۔اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی مہینوں سے بغیر روک ٹوک کے چل رہا ہے۔
یلاپور کی رہنے والی جو خاتون پولیس کے ہاتھ لگی ہے اس کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ وہ 2013کے اسمبلی الیکشن میں یلاپور حلقے سے بی ایس پی کی امیدوار بنی تھی۔ اس نے583ووٹ حاصل کیے تھے۔ گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ اپنے شوہر سے طلاق لینے کی کوشش کررہی ہے۔ گلابی گینگ کا شکار ہونے کے بعد وہ جسم فروشی کے کاروبار میں شامل ہوگئی اور اب پولیس نے ہوٹل سے ہاتھ لگنے والی دوسری خواتین کے ساتھ اس کوبھی بازآبادکاری کے لئے مخصوص ’سویکار کیندرا‘ میں بھیج دیا ہے۔
کاروار اور اس کے اطراف سماجی حالات پر نظررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب سے کاروار میں بحری اڈہ قائم ہوا ہے ، یہاں جسم فروشی کو زیادہ فروغ ملا ہے۔ بحری اڈہ سی برڈ سے جڑے ہوئے افسران اور عملے کے لئے کاروار اور آس پاس کی نوجوان لڑکیاں ایک مرغوب غذا سی بن گئی ہیں۔ جب بحری اڈے کے لوگ شہر میں آتے ہیں تو مخصوص ہوٹلوں کی نشاندہی کرکے وہاں پر ان کے لئے لڑکیاں فراہم کرنے کاکام مسلسل چل رہا ہے۔ شہر میں موجود ایک پٹرول بنک کے سامنے دوپہر کے وقت اور شام کو لڑکیوں کو بلاکر لانے اور گاہک کے ساتھ بھیجنے کاکام کرتے ہوئے دلالوں کو روزانہ دیکھا جاسکتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ کچھ ہوٹل والے خود ہی ایسے دھندے کے لئے کمرے مختص کردیتے ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ کاروار کے ہوٹل پر پولیس کی چھاپہ ماری کے بعد جسم فروشی کا ریکیٹ چلانے کے الزام میں گرفتار گینگ لیڈر گلابی کے علاوہ ماروتی رانے اور پریش مانجریکر کو 4 ستمبر تک عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔