جموں کشمیر: سجاد لون کو وزیر اعلیٰ بنانے کے بیان سے منحرف ہوئے گورنر
نئی دہلی27نومبر ( آئی این ایس انڈیا ) جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا ہے کہ مرکزی سرکار سجاد لون کو وزیر اعلی بنوانا چاہتی تھی۔ اگر میں ایسا کرتا تو یہ بے ایمانی ہوتی۔ اس بیان پر ہنگامہ ہوتے ہی ستیہ پال ملک نے کہا کہ ان کے بیان کو غلط تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی تھی۔
دو دن پہلے گوالیار کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ مرکز سے سجاد لون کو سی ایم بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔ اگر میں ایسا کرتا تو یہ بے ایمانی ہوتی۔ اس کے باعث میں نے حکومت ہی تحلیل کر دی۔ میرے اس فیصلے پر کچھ لوگ چلا ئیں گے تو چلائیں ،میرا فیصلہ درست ہے۔اس بیان پر ہنگامہ ہوا تو اب انہوں نے کہا کہ دہلی کی طرف سے کوئی دباؤ یا مداخلت نہیں تھی ۔ آج وہ دو دن پہلے دیئے اپنے بیان سے انحراف کر گئے ہیں۔ آج انہوں نے کہا کہ دہلی سے نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی مداخلت تھی ۔نجی ٹی وی آج تک سے بات چیت میں ستیہ پال ملک نے کہا کہ اگر مرکز کا مجھ پر دباؤ ہوتا تو مجھے سجاد لون کو سی ایم بنانا پڑتا۔ مجھے تو اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ مرکز کو اس معاملے میں میں 100 میں سے 110 نمبر دوں گا۔ آج تک پر آڈیو سنانے پر گورنر نے کہا کہ وہ بات میں نے کسی اور تناظر میں کہی تھی۔گورنر کے بیان پر ریاست کے سابق نائب وزیر اعلی نے کہا کہ گورنر پر کوئی دباؤ نہیں تھا، وہ صرف شہ سرخیوں میں رہنے کے لئے ایسا بیان دے رہے ہیں ۔ اس معاملہ میں نیشنل کانفرنس لیڈر دیویندر رانا نے کہا کہ یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔ مرکزی حکومت کو اس معاملہ میں اپنا رخ صاف کرنا چاہئے۔ مرکز ی سرکار سجادلون کو وزیر اعلی کیوں بنوانا چاہتی تھی۔ ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ اگر محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ حکومت بنانے کے تئیں سنجیدہ ہوتے تو فون کر سکتے تھے، کسی کے ہاتھوں خط بھیج سکتے تھے۔ میرا فون ہمیشہ کھلا رہتا ہے، رات کو دو بجے بھی، حتیٰ کہ میں واٹس ایپ پر بھی میسج آنے پر مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ محبوبہ مفتی نے مجھ ایک ہفتے پہلے کہا تھا کہ ان کے ممبران اسمبلی کو دھمکایا جا رہا ہے۔ ستیہ پال ملک نے کہا کہ سجاد لون بھی کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس بھی کافی ممبر اسمبلی ہیں۔ ان کے ممبران اسمبلی کو بھی دھمکایا جا رہا ہے۔ ایسے میں لون کو موقع دے کر میں تعصب نہیں کرنا چاہتا تھا۔واضح ہو کہ جموں و کشمیر میں بی جے پی نے پی ڈی پی سے حمایت واپس لے لی تھی،جس کے بعدسے وہاں گورنر راج نافذ ہے۔ گورنر راج کی میعاد پوری ہونے جا رہی تھی، جس کے پیش نظر ریاست میں حکومت بنانے کو لے کر جوڑ توڑ چل رہی تھی، اسی کے باعث گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔