ہندو مہاسبھا کا متنازع کلینڈرجاری؛ ایم پی کی کنول مولا مسجد بنارس کی گیان واپی مسجدوغیرہ کو بتایا مندر
علی گڑھ،20/ مارچ (ایس او نیوز / ایجنسی) ہندو مہاسبھا کی علی گڑھ اکائی نے ہندو نئے سال کا ایک انتہائی متنازعہ کلینڈر جاری کیا ہے۔ اس کلینڈر میں تاج محل سمیت سات مساجد اور دور مغلیہ کی عمارتوں کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔ ہندو مہا سبھا کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام عمارتیں درحقیقت مندر ہیں۔
ہندو نئے سال کے کلینڈر میں آگرہ کے تاج محل کو ’تیجو مہالئے مندر‘ بتایا گیا ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش کی کنول مولا مسجد کو ’بھوج شالا‘ اور بنارس کی گیان واپی مسجد کو ’وشو ناتھ مندر‘ بتایا گیا ہے۔ کلینڈر میں قطب مینار کو بھی مندر قرار دیتے ہوئے اسے ’وشنو استمبھ‘ اور جونپور کی اٹالا مسجد کو ’اٹلا دیوی کا مندر‘ قرار دیا گیا ہے۔
ایودھیا کی شہید ہو چکی بابری مسجد بھی اس کلینڈر میں شامل ہے جسے ’رام جنم بھومی‘ دکھایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کلینڈر میں مسلمانوں کے مذہبی مقام ’مکہ مکرمہ‘ کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ ہندو مہا سبھا نے اس کو اپنے کلینڈر میں ’مکّیشور مندر‘ ظاہر کیا ہے۔
ہندومہاسبھا کی سکریٹری پوجاشکون پانڈے سے جب اس کلینڈر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’ہندو نئے سال کا استقبال کے موقع پر ہندئوں کے نئے سال کا کلینڈر جاری کیا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ قرار دیا جائے۔ ‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’مسجدوں میں گنبد بنانے کا تصور اسلامی طرز تعمیر کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندوؤں نے شروع کیا تھا جسے مسلم حکمرانوں نے آگے بڑھایا۔ تاج محل کے اندر ایک قبر موجود ہے جس کی انجینئرنگ بہت حد تک ہندو تکنیک سے ملتی جلتی ہے۔ ‘‘ پوجا کا دعویٰ ہے کہ ’’بیرونی حملہ آوروں نے ملک کے ہندو مذہبی مقامات کو لوٹا اور ان کے نام تبدیل کر کے انہیں مسجد بنا دیا۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ ’’اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ہندوؤں کے مذہبی مقامات کو واپس کر دیں۔ اگر مسلمان دریا دلی دکھاتے ہیں تو ہم لوگ واپس ملے مذہبی مقامات کے نام پھر سے تبدیل کر لیں گے۔
‘‘ہندو مہاسبھا سکریٹری نے مکہ مکرمہ کو کلینڈر میں شامل کئے جانے سے متعلق کہا کہ ’’جب مسلمان مکہ میں حج کے لئے جاتے ہیں تو سفید پوشاک پہنتے ہیں اسے آپ مسلم روایت کا حصہ نہیں مان سکتے بلکہ یہ ہندوتوا سے جڑا ہوا ہے۔
‘‘ہندو مہاسبھا کے دعوؤں پر جب مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے کہا کہ ’’یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔ شر انگیز طاقتیں اس طرح کے بیجا بیانات کے ذریعہ ملک کی فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں پر قانونی کارروائی ہونی چاہئے۔ ‘‘علی گڑھ کے سابق رکن اسمبلی ضمیر اللہ خان نے اس معاملے پر کہا کہ ’’پاکستان کے حافظ محمد سعید اور اس طرح کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں ہی اپنے اپنے ملک کو برباد کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس طرح کے بیانات دونوں فرقوں کے بیچ پھر سے تنازعہ پیدا کرنے کی نیت سے دئے جا رہے ہیں۔
اس طرح کے منتازعہ بیانات پر عوام سوال کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے تعلق سے جب کوئی اشتعال انگیز بیانات اور بکواس باتیں کرتے ہیں تو اُن لوگوں پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی، مگر ایسا ہی کوئی بیان کوئی مسلم شخص دیتا ہے تو اُس پر پورے میں ملک بھوال مچایا جاتا ہے ۔