تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملک بغاوت قانون پر لگائی روک؛ قانون پر نظر ثانی تک درج نہیں کی جائے گی نئی ایف آئی آر
نئی دہلی 11 مئی (ایس او نیوز) سپریم کورٹ نے بغاوت قانون کو روک لگاتے ہوئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سیڈیشن ایکٹ کی آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کے تحت کوئی مقدمہ درج نہ کریں۔ عدالت نے حکومت کو آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کی دفعات کا جائزہ لینے کی اجازت دی ۔ تاہم، عدالت نے کہا کہ جب تک ملک بغاوت یا ملک غداری کے قانون پر نظر ثانی نہیں ہوتی تب تک حکومتوں کی طرف سے دفعہ 124A کے تحت کوئی مقدمہ درج نہ کریں اور نہ ہی اس میں کوئی جانچ کرے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر بغاوت کے مقدمات درج کئے جاتے ہیں تو فریقین راحت کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکٹا نے کے لئے آزاد ہیں۔ عدالتوں کو ایسے معاملوں کا تیزی سے نپٹارہ کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم کو راحت ملنا جاری رہے گا غداری قانون کی دفعات کو چیلنج کرنے والی درخواست پر اگلی سماعت جولائی میں ہوگی۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کہا کہ بغاوت کے قانون پر نظر ثانی ہونے تک اس پر روک لگا دی جائے اورغداری قانون کی دفعہ 124-A کے تحت کوئی نیا مقدمہ درج نہ کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی اپنے تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے تمام مقدمات کو روک دیا اور کہا کہ جن لوگوں پر غداری کا مقدمہ درج ہے، وہ افراد ضمانت کے لیے عدالت جا سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر نئی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو وہ بھی عدالت جا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مرکزی حکومت قانون پر دوبارہ غور کرے گی۔
بدھ کو سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا مرکزی حکومت کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ سنگین جرائم کو درج ہونے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ایف آئی آر تبھی درج کی جانی چاہیے جب ایس پی یا اس سے اوپر کے عہدے کا افسر یہ محسوس کرے کہ بغاوت کا الزام لگایا جانا چاہیے۔
تشار مہتا نے مزید کہا کہ ہمیں ملک غداری یا ملک سے بغاوت کے کیسوں کی سنگینی کا علم نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کا تعلق منی لانڈرنگ یا دہشت گردی سے ہوسکتا ہے۔ زیر التوا مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہیں۔ مہتا نے یہ بھی کہا کہ ہمیں عدالتوں پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے مہتا نے سپریم کورٹ سے کہا کہ آئینی بنچ کے ذریعہ بغاوت کی دفعات کو برقرار رکھنے کا حکم جاری کرنا درست طریقہ نہیں ہوگا۔ مگر غداری قانون پر سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ جن لوگوں پر پہلے ہی غداری کی دفعہ 124A کے تحت مقدمہ درج ہے اور وہ جیل میں ہیں وہ راحت کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ مرکز ریاستوں کو اضافی ہدایات جاری کرنے کے لیے آزاد رہے گی۔
بتاتے چلیں کہ بغاوت سے متعلق تعزیری قانون کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال جولائی میں مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ وہ اس شق کو کیوں منسوخ نہیں کر رہی ہے جسے انگریزوں نے تحریک آزادی کو دبانے اور مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیا تھا۔تب درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت نے اس دفعات کے مبینہ غلط استعمال کو نوٹ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا تھا، 'یہ نوآبادیاتی قانون ہے۔ یہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے تھا۔ اس قانون کو انگریزوں نے مہاتما گاندھی، تلک وغیرہ کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا آزادی کے 75 سال بعد بھی یہ قانون ضروری ہے؟