مغربی ممالک کے خدشات نظرانداز سعودی چین کے ساتھ مزید تعاون کا خواہاں
لندن، 13/جون (ایس او نیوز/ایجنسی)سعودی عرب کے وزیر توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان نے اعلان کیا ہے کہ ریاض چین اور سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر مغرب کے شکوک و شبہات کو نظر انداز کرتا ہے۔سعودی عرب چین کے ساتھ مقابلہ نہیں بلکہ مزید تعاون چاہتا ہے۔سعودی عرب کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک کی حیثیت سے دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے صارف چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے درمیان ایک بڑا ربط تیل کی وجہ سے ہے۔دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں گرم جوشی کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور حساس ٹیکنالوجی میں تعاون بھی مزید بڑھا ہے جس پر امریکہ اور مغربی ممالک کو تشویش ہے۔
عرب چین بزنس کانفرنس کے دوران دو طرفہ تعلقات پر تنقید کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا کہ وہ اسے نظر انداز کرتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی کاروباری شخص اس طرف بڑھے گا جہاں مواقع ہوں گے۔ چینی صنعت کار اور سرمایہ کار اس کانفرنس کیلئے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض آئے ہیں۔ یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے چند دن قبل ریاض کا دورہ کیا تھا۔
سعودی عرب کی تیل کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے مارچ میں دو بڑے سودے ہونے کا اعلان کیاتھا جو چین میں سعودی عرب کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تھی جب کہ سعودی عرب اس طرح چین کو سب سے زیادہ خام تیل فراہم کرنے والا ملک بھی بننے جا رہا ہے۔دسمبر میں چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے کے بعدیہ سب سے بڑا اعلان تھا۔چینی صدر نے اپنے ملک کی کرنسی یوآن میں تیل کی تجارت پر زور دیا تھا جو ایک ایسا اقدام ہے،جس سے امریکہ کی کرنسی ڈالر کا غلبہ کمزور ہو گا۔
کانفرنس میں سعودی وزیرِ توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ چین میں تیل کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اس طلب سے کچھ تو حاصل کرنا ہوگا۔شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے مقابلہ کرنے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کریں۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں اس پیش رفت نے چین اور خلیج کی تعاون کونسل کے درمیان 2004 سے جاری آزاد تجارت کے معاہدے کیلئے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔
سعودی وزیرِ سرمایہ کاری خالد الفالح نے کہا ہے کہ کسی بھی معاہدے کو ایک ایسے وقت میں ابھرتی ہوئی خلیجی صنعتوں کا تحفظ کرنا ہو گا جب خطہ محض تیل کی برآمدات پرانحصار کی جگہ، متنوع اقتصادی شعبوں کی طرف جانے کا آغاز کر رہا ہے۔