شمال مشرقی ریاستوں کے انتخابات کا پیغام؛ کہاں کھڑی ہے کانگریس؟ ۔۔۔۔۔ آز: ڈاکٹرمظفرحسین غزالی
شمال مشرق کی ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج آچکے ہیں۔ تریپورہ، ناگالینڈ اور میگھالیہ پر بی جے پی یا اس کی اتحادی جماعتوں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اسی کے ساتھ ملک کے 4033 ممبران اسمبلی میں سے کانگریس کے پاس صرف 658 ممبران بچے ہیں۔ 2014 میں اس کے 24 فیصد ایم ایل اے تھے۔ اب 16 فیصد ہی رہ گئے ہیں۔
مودی کے دور اقتدار میں کانگریس 331 ایم ایل اے گنوا چکی ہے۔ جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں 474 کااضافہ ہواہے۔ آندھرا پردیش، ناگالینڈ، سکم، مغربی بنگال اور دہلی میں اس کا ایک بھی ایم ایل اے نہیں ہے۔ گزشتہ نو سال میں کانگریس کا اقتدار 11 ریاستوں سے گھٹ کر 6 میں سمٹ گیا ہے۔ ان میں سے بھی تین بہار، جھارکھنڈ اور تمل ناڈو میں وہ اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔
انتخابات کو لے کر کانگریس کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کے انتخابات کے وقت وہ چھتیس گڑھ کے اجلاس کو کامیاب بنانے میں لگی تھی۔ لیکن وہیں دوسری طرف وزیراعظم اور ان کی ٹیم تریپورہ، ناگالینڈ اور میگھالیہ میں ووٹ مانگ رہے تھے۔ گزشتہ پانچ سال میں اکیلے نریندرمودی نے شمال مشرق کی ریاستوں کا 47 مرتبہ دورہ کیا ہے۔ اس میں وزیر اعلیٰ اور مرکزی وزراء کو شامل کر لیا جائے تو اوسطاً ہر پندرہ دن میں بی جے پی کا کوئی نہ کوئی وزیر شمال مشرق کی کسی ریاست کے دورے پر رہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر جہاں 2014 میں کانگریس اور بی جے پی کو وہاں کی 25 پارلیمانی سیٹوں میں سے 8 - 8 سیٹیں ملی تھیں۔ وہیں 2019 میں بی جے پی نے 14 سیٹوں پر جیت درج کی تھی ۔
تریپورہ میں بی جے پی کی فتح میں وہاں کے وزیراعلیٰ ماڑک ساہا کا اہم رول مانا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے یہاں ڈھائی دہائی سے اقتدار پر قابض لیفٹ فرنٹ کو ہرا کر 2018 میں پہلی مرتبہ حکومت بنائی تھی۔ اس مرتبہ لیفٹ فرنٹ نے کانگریس کے ساتھ مل کر بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس سے قبل کانگریس مغربی بنگال میں بھی لیفٹ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ کر ناکام ہوچکی ہے۔ البتہ بہار کے الیکشن میں لیفٹ نے اچھا مظاہرہ کیا تھا۔ کیرالہ میں لیفٹ فرنٹ کانگریس کے مد مقابل ہے۔ یہاں تک کہ بھارت جوڑو یاترا کے یاتریوں کو لیفٹ نے اپنے زیراثرعلاقہ میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
تریپورہ میں کانگریس کا ووٹ فیصد 1.41 سے بڑھ کر 8.56 فیصد ہو گیا لیکن اسے تین سیٹیں ہی مل پائیں۔ وہیں سی پی آئی ایم 11 سیٹوں پر سمٹ گئی۔ اس کا ووٹ فیصد 42.70 سے گھٹ کر 24 فیصد رہ گیا۔ حکومت کے خلاف ناراضگی کو ایک طرف ماڑک ساہا کم کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسری طرف مقامی پارٹی ٹپراموتھا پارٹی کے الیکشن کو سہ رخی بنانے کا بی جے پی کو فائدہ ملا۔ لیفٹ اور کانگریس ٹپراموتھا پارٹی سےاتحاد نہیں کرپایا۔ جبکہ بی جے پی نے یہ یقین دلا دیا کہ اسے ٹپراموتھا کی تمام شرائط منظورہیں اور وہ اس کے ساتھ مل کرحکومت بنائے گی بھلے ہی اس کی اکثریت کیوں نہ آجائے ۔
ناگالینڈ کے مقابلے میں کانگریس میگھالیہ میں مضبوط تھی۔ 2014 میں 29 سیٹوں کے ساتھ میگھالیہ میں کانگریس کی حکومت تھی۔ 2018 کے الیکشن میں کانگریس کو 8 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ وہ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی تھی۔ لیکن دو سیٹ جیتنے والی بی جے پی نے این پی پی کی حکومت بنوا دی۔ جبکہ اس کے پاس صرف 19 سیٹ تھی۔ اس مرتبہ کانگریس 21 سے کھسک کر 5 سیٹ پرآگئی۔ ناگالینڈ میں 80 اورمیگھالیہ میں 75 فیصد آبادی عیسائی ہے۔ 2014 کے بعد بھاجپا کے حمایت یافتہ ہندو شدت پسند عیسائی مبلغوں اور چرچوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مگر حالیہ انتخابات پران واقعات کا کوئی اثردکھائی نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عیسائی آبادی نے انہیں بھلا دیا، کیا عیسائی مرکزی اقتدار کے ساتھ رہنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتی ہے یا پھر حکومت کی اسکیمیں اس سب پر بھاری پڑی ہیں ۔ یہ تو تحقیق سے معلوم ہوگا لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کا اثر بڑھ رہا ہے۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت شمال مشرقی ریاستوں پر فوکس کر رہی ہے۔ ایک طرف وہ ہندی پٹی اگر اسے نقصان ہوا تو اس کی یہاں سے بھر پائی کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آئین میں بنیادی تبدیلی میں یہ ریاستیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ آئین کے بنیادی حقوق، صدر جمہوریہ کو منتخب کرنے کا طریقہ اور دوسری اہم ترامیم کے لئے ملک کی آدھی سے زیادہ ریاستوں کی منظوری درکار ہے ۔ یہ ریاستیں بھلے ہی چھوٹی ہیں لیکن طاقت کے لحاظ سے انہیں وہی درجہ حاصل ہے جو بڑی ریاستوں کوحاصل ہیں۔ شاید اسی لئے بی جے پی ان پرخاص توجہ دے رہی ہے۔ وہاں کی چھوٹی پارٹیوں کی شرائط منظور کرنے میں بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ طاقت ملنے کے بعد ان شرائط کو نظرانداز کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اگر کوئی جماعت اس کے منصوبہ کو ناکام کرنے کی کوشش کرے گی تو ایجنسیاں اسے حد سے آگے نہیں بڑھنے دیں گی۔ ابھی تک حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ جو بھی بی جے پی اقتدار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ ایجنسیاں اس کا اگلا پچھلا ریکارڈ چھاننے میں لگ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو بھاجپا کی کشتی میں سوار ہو جاتا ہے اس کے بڑے سے بڑے معاملے ٹھنڈے بستے میں چلے جاتے ہیں۔
بی جے پی اور کانگریس کے درمیان یہی فرق ہے۔ بی جے پی کی پوری توجہ اپنے کنبے کو جوڑنے اور ووٹوں کو بڑھانے پرہوتا ہے ۔ جبکہ طاقت ملنے کے بعد وہ اپنے اتحادیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بی ایس پی، اکالی دل، جے ڈی یو، ایل جے پی، شیو سینا وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ لیکن کانگریس اپنے ساتھیوں کو مطمئن کرنے، کنبہ کو بڑا کرنے اور ووٹوں کو جوڑ کر رکھنے میں مسلسل ناکام رہی ہے۔ کانگریس کے 85 ویں اجلاس سے ملک کو بڑی امیدیں تھیں۔ ملک یہاں سے بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن اور آئینی اداروں کو مفلوج کئے جانے کے خلاف مضبوط آواز کے اٹھنے کا انتظار کررہا تھا۔ لیکن راہل گاندھی کے میرے پاس گھر نہیں ہے والے بیان نے لوگوں کو مایوس کیا۔ اس اجلاس میں نوجوانوں، خواتین، اقلیت، دلتوں اور پسماندہ کو تنظیم میں ریزرویشن دینے اور گاؤں تک کانگریس کارکنوں کے پہنچنے کی تجویز پاس کی گئی ہے ۔ مگر اس نے اپنے137 سالہ نظریاتی سفر پر مشتمل اشتہار میں کسی مسلمان کو جگہ نہیں دی۔ جبکہ مسلمان جہاں ریجنل پارٹیاں نہیں ہیں وہاں کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں ۔
چھتیس گڑھ اجلاس میں کانگریس کارکنان نے گاؤں اورپنچایت تک پہنچنے اور اپوزیشن کو متحد کرنے کا عہد کیا تھا۔ اسی کے بعد بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے کہا تھا کہ کانگریس سمیت پورا اپوزیشن اگر متحد ہو جائے تو اگلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی100 سیٹوں پر سمٹ جائے گی۔ لیکن ابھی تک کانگریس کی طرف سے اتحاد کا کوئی فارمولا سامنے نہیں آیا ہے۔ جبکہ سیاسی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔ منیش سشودیا کی گرفتاری پر اپوزیشن پارٹیوں کے نو لیڈران نے اپنے دستخط کے ساتھ وزیراعظم کو خط بھیجا ہے۔ اس میں کانگریس کا کوئی شخص موجود نہیں ہے۔ دستخط کرنے والوں میں ممتا بنرجی، چندر شیکھر راؤ، فاروق عبداللہ، ادھو ٹھاکرے، شرد پوار، اکھلیش یادو، بھگوت مان اور اروند کجریوال شامل ہیں۔ اس خط میں وہ سارے سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا کانگریس نے اپنے اجلاس میں ذکرکیا تھا ۔ لیکن خط میں کہیں بھی اڈانی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اس خط نے تیسرے مورچہ کے امکان کو ہوا دی ہے۔ کانگریس کے اجلاس میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ تیسرے مورچہ سے بی جے پی کو ہی فائدہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کانگریس اس فرنٹ پرکیا کر رہی ہے۔ اسی سال کے آخر میں چھ اور ریاستوں کے انتخابات ہونے ہیں۔ بی جے پی وہاں اپنی انتخابی مہم شروع کرچکی ہے۔ مگر کانگریس کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگر وقت رہتے اپوزیشن نہیں سنبھلا اور کامن روڈ میپ تیارنہیں کیا تو ہاتھ آئے موقع کے باوجود کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ شمال مشرقی ریاستوں کے انتخابات کا یہی پیغام ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اسے کب سمجھتا ہے۔