اسلامک ہی نہیں کسی بھی ملک میں تین طلاق دینے پرسزا کا قانون نہیں؛ کوئی ایک مثال پیش کرنے بورڈ ممبر فاطمہ مظفر کا چیلنج
بھٹکل 7/جنوری (ایس او نیوز) اسلامی ملک ہی نہیں کسی بھی ملک میں تین طلاق دینے پر تین سال کی سزا کا قانون نہیں ہے، وزیراعظم نریندر مودی جھوٹ بول کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا نے کی کوشش کررہے ہیں، اگر آپ کہتے ہیں کہ اسلامی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے تو پھر مجھے کسی ایک ملک کی مثال پیش کیجئے، ان باتوں کا اظہار آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ممبر اور تمل ناڈو مسلم ویمن اسوسی ایشن کی نائب صدر محترمہ اے ایس فاطمہ مظفر نے کیا۔ وہ یہاں بھٹکل میں انجمن حامئی مسلمین بھٹکل کے زیر اہتمام انجمن کی صدسالہ تقریب میں خواتین کے جلسہ سے خطاب کرنے کے بعد اخبارنویسوں کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔
محترمہ فاطمہ مظفر نے بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی کا یہ کہنا کہ اسلامی ممالک میں تین طلاق دینے پر پابندی عائد ہے، وہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں جس میں کوئی سچائی نہیں، محترمہ نے مودی کے اس طرح کے جواب پر یہ بھی کہا کہ ہم دوسرے ملک میں نہیں جی رہے ہیں، ہم انڈیا میں جیتےہیں اس لئے ہمیں دوسرے ممالک کے قوانین کی طرف جھانکنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہاں پر کس طرح کے قوانین بنے ہیں۔ محترمہ نے مزید فرمایا کہ22/اگست 2017 میں انڈیا میں بھی اب سپریم کورٹ میں ایک ججمنٹ آیا ہے کہ ہندوستان میں تین طلاق نہیں دیا جاسکتا، اس حساب سے ہندوستان میں بھی قانونی طور پر دیکھیں تو تین طلاق کااطلاق ہی نہیں ہے اور اگر تین طلاق دیں گے تو بھی سپریم کورٹ کے ججمنٹ کے حساب سے تین طلاق واقع نہیں ہوگا، انہوں نے سوال کیا کہ اس طرح کے ججمنٹ کے بعد پھر کس جھوٹ کی بنیاد پر تین طلاق کا بِل لایاجارہا ہے ؟
2016 میں تین طلاق کا معاملہ لے کر سپریم کورٹ سے رجوع ہونے والی ساحرہ بانو کے تعلق سے محترمہ فاطمہ مظفر نے سوال کیا کہ ساحرہ بانو آج کسی پارٹی کی ممبر ہے ؟ انہوں نے کلکتہ کی کوثر کے تعلق سے بھی معلومات حاصل کرنے میڈیاوالوں سے کہا کہ وہ جاکر دیکھیں کہ کوثر کس پارٹی سے منسلک ہے، اسی طرح جو تین سو خواتین سپریم کورٹ میں گئی تھیں، اُنہیں اس کام کے لئے اُبھارنے والے کون لوگ تھے۔ فاطمہ مظفر نے یہ بھی کہا کہ جو بھی خواتین سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تھیں، اُس میں سے کسی بھی خاتون نے یہ نہیں کہا تھا کہ تین طلاق دینے پر اُن کے شوہر کو جیل بھیجا جائے۔ فاطمہ مظفر کے مطابق جو لوگ عدالت گئے ہیں، اُن کے مسائل یہ تھے کہ شوہر کی طرف سے دیکھ ریکھ نہیں ہورہی ہے،خرچہ پانی شوہر نہیں دے رہا ہے، اندرونی تشدد کے معاملات تھے، ساس بہو کے درمیان ہونے والے لڑائی جھگڑوں کا معاملہ تھا، اسی طرح کے دیگر معاملات تھے، کہاں جاکر یہ تین طلاق کا معاملہ بنا، یہ خود ہماری سوچ سے باہر ہے۔ ایک انٹرویو میں جیسا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے حکومت سے تین طلاق کو لے کر ایک قانون بنانے کا آرڈر دیا تھا، جس کے لئے حکومت نے یہ بِل پیش کیا تھا۔ اس پر جواب دیتے ہوئے فاطمہ نے کہا کہ 395 صفحات پر مشتمل اگر عدالت کا ججمنٹ آپ پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ اُس میں اقلیتوں کے لئے ایک مشورہ دیا گیا تھا کہ حکومت اگر چاہے تو اس تعلق سے قانون بناسکتی ہے۔ انہوں نے مودی کی بات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ قانون بنانے کے لئے سپریم کورٹ نے حکومت کو کوئی حکم نہیں دیا تھا۔
محترمہ فاطمہ نے کہا کہ جنوری 2018 سے جون 2018 تک پورے ملک میں دوسو سے زائد خاموش احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور دو کروڑ سے زائد مسلم خواتین نے ان احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا جس میں خواتین نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ شو کرتے ہوئے حکومت کو متوجہ کرایا کہ اسلامی شریعت میں جو قانون ہے، وہی قانون خواتین کی حفاظت کے لئے کافی ہے، ہمیں اپنی شریعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے قانون کی ضرورت نہیں ہے، یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے، اور ہم اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔اسی طرح پلے کارڈ کے ذریعے اس با ت کی بھی جانکاری دی گئی تھی کہ ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے یہ ہمارا دستوری حق ہے کہ ہم اپنے مذہب اور اپنی شریعت کے مطابق اپنی زندگی گذار سکتے ہیں۔محترمہ فاطمہ نے کہا کہ ان سب کے باوجود بی جے پی حکومت خواتین کے تحفظ کے نام پرمسلمانوں پر اپنا بل تھوپنے کی کوشش کررہی ہے،جس کی ہم سخت مخالفت کرتے ہیں، ہم اس بِل کو ہرگز قبول نہیں کریں گے اور ہم اس بِل کو مسترد کرتے ہیں۔ محترمہ فاطمہ نے کہا کہ لوک سبھا میں مسلم خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے کئی ممبران پارلیمان نے خطاب کیا اور اُس بل کی مخالفت کی ، کئی خاتون رکن پارلیمان نے بھی ہمارے حق میں اپنی آواز بلند کی ہم اُن تمام ارکان پارلیمان کا شکریہ ادا کرتے ہیں. محترمہ نے کہا کہ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ویمن وینگ جس کی کنوینر محترمہ آسماء زہرہ ہیں نے ذاتی طور پرحزب مخالف اور برسراقتدار کے ارکان پارلیمان سے ملاقات کی تھی اور اُنہیں بتایا تھا کہ اس بِل سے ہمیں کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے اور حکومت کس طرح ہمارے تعلق سے جھوٹ بول رہی ہے۔ محترمہ فاطمہ نے کہا کہ لوک سبھا میں حزب مخالف کی جانب سے پوری طاقت سے بِل کی مخالفت کرنے کے باوجود حکومت نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر بِل کو منظور کرایا مگر راجیہ سبھا میں اس بِل کو لے کر کیا حشر ہوا اور حکومت کی کس طرح بے عزتی ہوئی اُسے بھی آپ سب نے دیکھا ہوگا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی رکن محترمہ فاطمہ مظفر نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت کو واقعتاً ہماری کوئی فکر ہے تو وہ راجندر سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے، جسے پارلیمان میں پیش کیا جاچکا ہے اور اُس میں کہا گیا ہے کہ مسلمان تعلیمی میدان میں نہایت پچھڑے ہوئے ہیں، مسلمان مالی طور پر سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں،ملک کے مسلمان سب سے زیادہ غریب ہیں، سب سے زیادہ بیروزگاری کے شکار ہیں، سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ ہیں، سماجی طور پر مسلمانوں کو بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف راجندر سچر کمیٹی کی سفارشات کوعمل کرتے ہوئے ہمارے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔سب سے زیادہ غربت ہونے کی بنا پر بچے اسکول نہیں جارہے ہیں، آئی اے ایس ،آئی پی ایس اور اسی طرح کے دیگر مقابلہ جاتی امتحانوں میں مسلمانوں کی تعداد سب سے نیچے ہے۔
محترمہ فاطمہ نے کہا کہ اگر حکومت مسلم خواتین کو با اختیار بنانا چاہتی ہیں تو مسلم خواتین کو ریزرویشن فراہم کریں، مسلم خواتین کو تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیا جائے، ہمیں سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دیا جائے۔
فاطمہ مظفر نےواضح کیا کہ یہ بِل مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے لایا گیا تھا۔ مزید کہا کہ ملک میں گئو رکھشک کے نام سے، ماب لنچنگ کے نام سے ، دہشت گردی کے نام سے ، پولس انکاونٹر کے نام سے ظلم ہورہا تھا، اب تین طلاق کے نام پر نئے بل کےذریعے حکومت کی مزید ظلم ڈھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیش کئے گئے بِل پر آج عام آدمی بھی حکومت کا مذاق اُڑا رہا ہے کہ جو آدمی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو کوئی جرم نہیں اور طلاق دیے کر اُسے دوسری شادی کرنے کی شرعی اجازت دیتا ہے تو اُس پر تین سال کی سزا کا قانون لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلئے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہے، انہوں نے مودی حکومت پر راست نشانہ لگاتے ہوئے کہا کہ ان کےدور حکومت میں ہندوستان آج پوری دنیا میں خواتین کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ملک بن چکا ہے، جہاں خواتین کے لئے کسی بھی طرح کا تحفظ نہیں ہے اور یہاں خواتین کی عصمت محفوظ نہیں ہے۔آج ملک میں پانچ مہینہ کی بچی کی عصمت محفوظ نہیں ہے۔ بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو، یہ صرف ایک نعرہ ہے، مگر خواتین کے لئے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔