کشمیر میں ہڑتال کا 58 واں دن، معمولات زندگی بدستور متاثر
سری نگر،2؍اکتوبر (ایس او نیوز؍یو این آئی) وادی کشمیر میں 5 اگست کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف شروع ہوئی ہڑتال منگل کے روز 58 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ جہاں وادی بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل ہے وہیں سڑکوں پر دوڑنے والی نجی گاڑیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ دکانیں و تجارتی مراکز بند ہیں تاہم بیشتر علاقوں میں صبح یا شام کے وقت دکانیں کھل جاتی ہیں اور گاہک بھی نمودار ہوکر خریداری کرتے ہیں۔
وادی میں موبائل فون، انٹرنیٹ اور ریل خدمات 5 اگست سے مسلسل معطل رکھی گئی ہیں۔ انتظامیہ کے تعلیمی ادارے کھولنے کے احکامات کے باوجود وادی کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں درس وتدریس کی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اگرچہ سرکاری دفاتر، بنکوں اور دوسرے دفاتر میں معمول کا کام کاج بحال ہوچکا ہے تاہم نجی مواصلاتی کمپنیوں اور ای کامرس دفاتر میں کام کاج ٹھپ ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وادی کی صورتحال میں اگرچہ بہتری آئی ہے تاہم شام کے وقت پتھراؤ ہوتا ہے جس کے بعد احتجاجیوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی پولس نے پتھراؤ کے واقعات پر بریک لگانے کے لئے گرفتاریوں کا سلسلہ مزید تیز کردیا ہے۔
وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر جاری پابندی منگل کو 58 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی کی وجہ سے اہلیان کشمیر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔
وادی بھر میں تعلیمی ادارے گزشتہ دو ماہ سے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔
انتظامیہ نے بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے۔ علیحدگی پسند لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے منگل کی صبح پائین شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا کے مطابق پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر کوئی پابندیاں عائد نہیں ہیں تاہم لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے روکنے اور پتھراؤ کرنے والے نوجوانوں سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق جامع مسجد کو بدستور مقفل رکھا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے دروازوں کے سامنے ٹھہرنے یا گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پائین شہر میں تمام دکانیں اور تجارتی مراکز بند ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیشتر سڑکیں سنسان نظر آرہی ہیں۔