کاروار: ضروری اشیاء خریدنے کے کرفیو میں چھوٹ ۔ گاڑیوں کے استعمال پر پابندی ۔ عوام ہوگئے پریشانیوں کا شکار
کاروار ،10؍ مئی (ایس او نیوز) حکومت کی طرف سے کورونا لاک ڈاون کے دوران ضلع شمالی کینرا میں صبح 6 بجے سے 10 دس بجے تک اناج، کھانے پینے کی چیزیں، دودھ، گوشت، مچھلی، فروٹ اور ترکاری وغیرہ کی دکانیں کھولنے اور عوام کو ان چیزوں کی خریداری کرنے کے لئے چھوٹ دی گئی ہے۔ مگر اس چھوٹ سے عوام کو راحت کے بجائے مزید مشکلات کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کا بیان: ڈپٹی کمشنر مولئے موگیلن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لاک ڈاون میں چھوٹ کے دوران لوگوں کو پیدل چل کر ہی دکانوں تک جانا اور سودا سلف خریدنا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور تحصیلدار وغیرہ کے ذریعے گلی گلی میں مچھلی ، گوشت ، ترکاری اور اناج وغیرہ کی دکانوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے اور انہیں کے توسط سے لوگوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچانے کا انتظام کیا ہے۔ اس لئے کسی کو بھی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ بازاروں میں خریداروں کا ہجوم ہونے سے کورونا کے معاملات میں اضافہ ہوتا ہے، اس لئے اس پر قابو پانے کے لئے اس طرح کا لاک ڈاون ناگزیر ہے۔
کیا کہتے ہیں ایس پی:ضلع ایس پی شیو پرکاش دیوراجو کا کہنا ہے کہ پچھلی بار کے مقابلے میں اس مرتبہ مزید سخت قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔ اس میں سرکاری دفاتر، میڈیا، بینک دواوں کی دکانوں اور اسپتالوں کو چھوڑ کر باقی تمام شعبہ جات میں یہ قوانین سختی کے ساتھ لاگو کیے جائیں گے۔ کسی بھی قیمت پر دوسرے کسی بھی کام کے لئے موٹر گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت نہیں رہے گی۔ جن لوگوں نے شادی کی تقریبات کے لئے پہلے اجازت نامہ لے رکھا ہے بس انہی کے لئے گنجائش رہے گی۔
سامان سر پر اٹھا کر لے جائیں :حکومت کے اس نامعقول حکم کی وجہ سے عوام کو سودا سلف خریدنے کے بعد سامان اپنے سر پر ڈھو کر لے جانے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔ شہروں کی طرح قصبوں اور گاوں کے گلی کوچوں میں دکانیں اور ٹھیلے والے نہیں ہوتے۔ یہاں پر لوگوں کو اپنے گھروں سے دور واقع بازاروں میں جاکر خریداری کرنی پڑتی ہے۔ اب جب کو موٹر گاڑیوں اور رکشہ غیرہ سڑک پر دوڑانے پر جو پابندی لگی ہے اور لوگوں کو پیدل ہی چل کر دکانوں سے سودا سلف خریدنے پر مجبور کیا گیا ہے تو عمر رسیدہ افراد اور خواتین کے لئے اپنا خریدا ہوا سامان کندھوں یا سروں پر ڈھوکر لے جانا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ شاید افسران اور حکام کو نہیں ہے۔
ایئر کنڈیشنڈ روم والے کیا سمجھیں گے:آج مکمل لاک ڈاون کے پہلے دن دیہاتوں میں لوگوں کو دو دو کلو میٹر تک پیدل چل کر جاتے اور سامان سر پر اٹھا کر لوٹتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ سرکاری دفتروں اور بینکوں سے متعلقہ کام کے لئے یا پھر ہوٹل سے پارسل لینے کے لئے بھی ان لوگوں کے لئے پیدل ہی جانا آنا کسی آفت سے کم نہیں ہے۔ اس صورتحال پر عوام کا کہنا یہ ہے کہ بنگلورو کے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے حکام اور افسران کوقصبوں اور دیہاتوں میں بسنے والے عام لوگوں کی درگت اور مصیبت کا کیسے احساس ہوسکتا ہے۔