حجاب تنازعہ: ’کسی بھی مذہب کے پاس منمانا حق نہیں‘، کرناٹک حکومت نے سپریم کورٹ سے کیس بڑی بنچ کو نہ بھیجنے کی اپیل کی
نئی دہلی، 22؍ستمبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) بدھ کے روز بھی حجاب تنازعہ پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری رہی۔ کرناٹک حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (یعنی سرکاری وکیل) کے ایم نٹراج نے جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بینچ کے سامنےاپنی بات رکھی اور تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو درست ٹھہرایا۔ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ’’سبھی مذاہب کے درمیان توازن برقرار رکھا جانا چاہیے۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے پاس منمانا حق ہے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ کیس کو بڑی بنچ کے پاس بھیجنے کی ضرورت ہے۔ کرناٹک حکومت کی طرف سے کے ایم نٹراج نے کہا کہ یہ تعلیمی اداروں میں جنرل ڈسپلن کا کیس ہے اور اسے بڑی بنچ کے پاس بھیجنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ کے سامنے کرناٹک حکومت کی بات رکھتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے کہا کہ حکومت نے حجاب پر کوئی پابندی نہیں لگائی ہے، بلکہ بتایا ہے کہ کسی بھی مذہب سے بالاتر ہو کر اسکولوں و کالجوں کی یونیفارم کیا ہونی چاہیے۔ کرناٹک حکومت کا کہنا ہے کہ ’’ہماری طرف سے نہ تو کسی مذہبی سرگرمی پر روک لگائی گئی ہے اور نہ ہی کسی کو الگ سے فروغ ہی دیا جا رہا ہے۔‘‘ حکومت کی طرف سے اے جی پربھولنگ نوادگی نے بھی حکومت کی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’اسکول گاڑی یا پھر کیمپس میں حجاب پہننے پر کوئی روک نہیں ہے۔ یہ صرف کلاسز کے دوران ہے۔‘‘
بہرحال، بدھ کو سماعت ختم ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اس تعلق سے جمعرات کو بھی سماعت جاری رکھنے کی بات کہی ہے۔ حجاب معاملے پر سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت چل رہی ہے، اور بدھ کو عدالت عظمیٰ میں اس سماعت کا نواں دن تھا۔ ریاستی حکومت کی طرف سے عدالت میں واضح لفظوں میں کہا گیا کہ اگر کوئی کلاس میں حجاب نہیں پہنتا ہے تو اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے۔ اے جی نے تین طلاق اور گئوکشی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ چیزیں اسلام کا لازمی حصہ نہیں تھیں۔ اسی طرح عرضی دہندگان کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ کیسے حجاب پہننا اسلام کا لازمی حصہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں یونیفارم طے کی جائے۔ اس کا مقصد کسی بھی لباس پر روک نہیں ہے، بلکہ تعلیمی اداروں میں جنرل ڈسپلن طے کرنا ہے۔
دراصل، کرناٹک حکومت نے پری یونیورسٹی اور کالجوں میں حجاب پہننے پر روک لگانے کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد اسکولوں میں بھی طالبات کو حجاب پہننے سے روکے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں تھیں۔ اس دوران اڈپی اور کنداپور کی بعض طالبات نے اے پی سی آر (اسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سیول رائٹس)سمیت بعض اداروں سے رابطہ کرتے ہوئے سرکار کے حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتوراج اوستھی کی صدارت والی مکمل بینچ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئےاپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسلام میں حجاب پہننا ضروری عمل نہیں ہے- عدالت نے مزید کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ نافذ کرنے کا مشورہ یا حکم دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو اے پی سی آر اور بعض اداروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیااب عدالت عظمیٰ ایسی23عرضیوں پر ایک ساتھ سماعت کر رہی ہے- ان میں سے کچھ رٹ عرضیاں بھی ہیں۔
بتاتے چلیں کہ سپریم کورٹ میں حجاب کی حمایت میں ملک کے ٹاپ وکلاء نے مسلمانوں کی بہترین نمائندگی کی ہے جس میں ایڈوکیٹ دیودت کامتھ، ایڈوکیٹ کپل سبل، ایڈوکیٹ راجیو دھون، ایڈوکیٹ سنجے ہیگڈے، ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی، ایڈوکیٹ میناکشی ارورا، ایڈوکیٹ سینا کوٹھاری، ایڈوکیٹ سلمان خورشید، ایڈوکیٹ دشینت دوے، ایڈوکیٹ یوسف مچھالا اور ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کے نام قابل تعریف ہیں۔