کاروار :ڈیزل کی بڑھتی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے ماہی گیری پر پابندی ہٹنے کے باوجود مچھیرے سمندر میں اُترنے میں تذبذب کے شکار
کاروار 3/ اگست (ایس او نیوز) مانسون کے آغاز پر جون کے مہینے میں گہرے سمندر میں ماہی گیری پر جو سرکاری پابندی لگی تھی وہ 31 جولائی کو ختم ہوگئی مگر یکم اگست سے ماہی گیر سمندر میں اترنے کے بجائے ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے ابھی کنارے پر ہی رکے ہوئے ہیں ۔
ہر سال مانسون کے دو مہینوں میں سرکاری طورپر گہرے سمندر میں ماہی گیری پر پابندی لگائی جاتی ہے کیونکہ یہ موسم مچھلیوں کے انڈے دینے کا ہوتا ہے ۔ دو مہینے مچھلیوں کی افزائش کا مرحلہ ہوتا ہے اس لئے کسی کو بھی ماہی گیری کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر محکمہ ماہی گیری کی طرف سے مچھیروں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
لیکن جیسے ہی اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو ماہی گیر ایک دوسرے پر سبقت لے کر گہرے سمندر میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مچھلیاں شکار کی جا سکیں ۔ لیکن اس مرتبہ یہ جوش و خروش دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے کیونکہ ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ اسی طرح موسم بھی سازگار نہیں ہے ۔ دوسری طرف لاک ڈاون کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی طرح مچھیرے بھی مالی طور پرخستہ حالی کا شکار ہیں ۔ اس کے علاوہ حکومت نے بھی مچھیروں کو ڈیزل کی سبسیڈی نہ دیتے ہوئے صرف ٹیکس فری قیمتوں پر ڈیزل فراہم کرنے کی بات کہی ہے ۔
اب اگر ایسے میں گہرے پانیوں میں شکار پر جانے کے بعد اطمینان بخش مقدار میں مچھلیاں ہاتھ نہیں لگیں تو پھر مچھیروں کے لئے مہنگائی میں آٹا گیلا والی بات ہوجائے گی ۔ اس لئے ماہی گیر اپنی کشتیوں کے لنگر بندرگاہ سے اٹھانے میں ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے صرف کاروار ہی نہیں بلکہ انکولہ ، کمٹہ ، ہوناور اور بھٹکل کی بندرگاہوں پر لنگر ڈالی کشتیوں کی قطاریں جوں کی توں لگی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔