تقسیم کی کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ
گیان واپی مسجد سمیت مسلمانوں کی دیگر عبادتگاہوں اور تاریخی عمارتوں کو لے کر جس طرح ملک میں ہندو شدت پسند تنظیمیں اُن عمارتوں میں کھدائی کرنے اور سروے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عدالتوں میں پیٹیشن داخل کررہے ہیں، اُس تناظر میں ریاست کے معروف اور معتبر سمجھے جانے والے کنڑا روزنامہ پرجاوانی نے اپنے اداریہ میں بہت کچھ کہنے کی کوشش کی ہے، جس کا اُردو ترجمہ قارئین کی معلومات کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔ ادارہ
ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سکیولرزم ہمارے دستور کے اصل منشاء میں سے ایک ہے ۔یہ سبھی کوششیں 1991کے تحفظ مذہبی مقامات قانون کی خلاف ورزی بھی کرتی ہیں۔متعلقہ قانون 15اگست 1947کو بنایا گیا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ جو مذہبی مقام جس شکل و ساخت میں بھی ہوگی اس کو اسی حالت میں محفوظ رکھنا ہے۔اس قانون میں کسی مذہبی مقام کی شکل و ساخت کو بدلنے کی ممانعت ہے۔
بنارس کی گیان واپی مسجد، متھورا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور دیگر چند علاقوں کی عبادت گاہوں کو لے کر اس وقت ابھیان چل رہاہے۔ تکرار کی عرضیاں بھی درج کی گئی ہیں، فرقہ وارانہ زہر ، تاریخ کو مسخ کرنے اور قانون کی غلط تشریح کئے جانے سے ماحول آلودہ ہورہاہے اسی دوران چند مطالبات کو لے کر انصاف کی کارروائیاں بھی شروع ہوچکی ہیں۔
بابری مسجد کے سوا دیگر عبادت گاہوں کی شکل و ساخت 15اگست 1947کو جیسی تھی اسی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتےہوئے ’تحفظ مذہبی مقامات قانون ‘ کے ذریعے ایسے تقسیمی تنازعات کو ختم کرنے کا مقصدتھا۔ یہ ایکٹ اس زمین کا قانون ہے۔ہندوتوا تنظیمیں اس وقت تنازعات کا شکار ہوئے مذہبی مراکز سمیت جن مقامات کو ہمارے کہہ رہے ہیں ان سب مقامات پر اس قانون کا اطلاق ہوتاہے۔ بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ نے 2019کے فیصلے میں اس قانون کو درست قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مسجد کے انہدام کو عدالت نےکریمنل جرم کہاہے۔ ’اس قانون کو تشکیل دیتےہوئے حکومت نے ملک کے دستور کی اصل منشاء میں سے ایک سکیولرزم ، سبھی دھرموں کو مساوی نظر دیکھنے کو باقی رکھتے ہوئے اپنی دستوری فرض کو عملی روپ دیا ہے، دستور کے تئیں اپنی وفاداری کو نافذ کیا ہے۔
اب جو کوششیں چل رہی ہیں وہ فرقہ وارانہ نفرت سے بھری ہوئی ہیں۔ ملک کی مذہبی اقلیتی طبقے کو پریشان کرنے، انہیں ذلیل کرنے کی خواہش رکھتےہیں۔ اقلیتی طبقے کو حد میں رکھنے اور اس طبقے کو مین اسٹریم سے باہر رکھنے کا مقصد ہے۔ حال ہی میں تاریخ کو بدلنے کی بھی کوشش کی گئی ، وہ بھی غلط ہے۔ پچھلے جو کچھ اشتعال انگیزی کے رویے ہوئےہیں اب پھر اس کو اشتعال انگیزی کے ذریعے صحیح نہیں کیا جاسکتا۔
تاریخ میں کئی ساری غلطیاں ہوئی ہونگی انہیں اب درست نہیں کیاجاسکتا۔ تاریخ کی غلطیوں سےسبق لینا ہوگا، دوبارہ ایسی اشتعال انگیز ی نہ ہو، اس کا خیال رکھنا ہوگا۔ اب جو نفرتی ابھیان جاری ہے اس کے متعلق حکومت نے کچھ نہیں کہاہے۔ لیکن ابھیان کو بی جےپی کے چند لیڈران کی کی گئی حمایت پر غور کریں تو یہ جان سکتے ہیں کہ حکومت آخر چاہتی کیا ہے ۔ مگر اب قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری سے روگردانی کاموقع نہیں ہے۔حکومت چوکنا رہنا ہوگا اور اگر قانون میں ہی ترمیم کی کوشش کی گئی تو ایسا رویہ ملکی دستور کے بہت ہی اہم حصہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔