کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

Source: S.O. News Service | Published on 19th July 2023, 11:57 AM | ملکی خبریں | اسپیشل رپورٹس | مہمان اداریہ |

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب پونجی وادی بحران کی وجہ سے بے روزگاری بڑھ جائے اور تب تک بالادستی کی حالت میں رہنے والی اجارہ دارانہ پونجی پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے۔

ایسی حالت میں فاشسٹ عناصر کا کردار مشاورت کو موڑنے کا ہوتا ہے، تاکہ بحران زدہ پونجی واد کے تحت جینے کی بنیادی تکلیف کو کچھ بے بس مذہبی یا نسلی یا لسانی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور غصے کو پھیلا کر ڈھکا جا سکے۔ اس کے علاوہ جب فاشسٹ عناصر اقتدار میں آتے ہیں تو سرکاری استحصال کا استعمال تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ ہی فاشسٹ عناصر کے اپنے شورش پسند اقلیتوں، نظریہ سازوں، دانشوروں، سیاسی مخالفین اور آزاد ماہرین تعلیم کے خلاف ’نگرانی گروپ‘ کے طور پر کام کرنے لگتے ہیں۔

ہندوستان کے حالات اس پیٹرن پر پوری طرح فِٹ بیٹھتے ہیں۔ حالانکہ فاشسٹ گروپوں کے سیاسی اقتدار تک پہنچ جانے سے اس میں ایک اور عنصر بھی جڑ گیا ہے۔ اجارہ دار پونجی کے اندر یہ ایک نیا ابھرتا ہوا عنصر ہے- نیا اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ جس کی فاشسٹ گروپوں کے ساتھ خاص نزدیکیاں ہیں۔ فرانس کے مشہور مارکسوادی رائٹر ڈینیل گویرین نے اپنی کتاب ’فاشزم اینڈ بگ بزنس‘ میں بتایا تھا کہ جرمنی میں ٹیکسٹائلس اور صارفین کے سامان جیسے شعبوں سے جڑے پرانے اجارہ دار سرمایہ داروں کے مقابلے میں اسپات، پیداوار اشیا، اسلحہ اور جنگی اشیا جیسے شعبوں میں نئے ابھرتے اجارہ دار سرمایہ داروں نے 1930 کی دہائی میں نازیوں کی کہیں مضبوطی کے ساتھ مدد کی تھی۔

کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرانے اجارہ دار سرمایہ دارانہ گروپ نے نازیوں کی حمایت نہیں کی۔ دراصل مشہور و معروف ماہر معیشت مائیکل کالیکی نازی حکومت کو فاشسٹ بیداری اور بڑے کاروبار کے درمیان شراکت دار کی شکل میں دیکھتے ہیں اور وہ سرماہی داروں کے معاملے مین کوئی فرق نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ سچ ہے کہ نئے اجارہ دار گروپ فاشسٹ عناصر کو زیادہ سرگرم، زیادہ جارحانہ حمایت فراہم کرتے ہیں۔

ایسے ہی جاپان میں نسان اور موری جیسی کمپنیاں شنکو زیباتسو، یعنی اجارہ دار سرمایہ داروں کا ابھرتا ہوا نیا گروپ تھا جو 1930 کی دہائی میں جاپانی فوجی فاشسٹ حکومت کی حمایت کرنے والی متسوئی، متسو بشی اور سمیتومو (جاپانی صنعت کاری کی علم بردار) جیسے پرانے زیباتسو کے مقابلے میں کہیں زیادہ جارحانہ تھیں۔

ایک بار پھر یہ معاملہ پرانے اجارہ دار گھرانوں کے ذریعہ فاشسٹ حکومت کو حمایت نہ کرنے کا نہیں ہے۔ انھوں نے واضح طور سے ایسا کیا اور اسی حمایت کے سبب عالمی جنگ کے بعد جاپان میں جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت والی امریکی حکومت نے پرانے زیباتسو گھرانوں کو بھی ختم کر دیا۔ یہ دیگر بات ہے کہ بعد میں وہ ایک الگ شکل میں پھر سے ابھر آئے۔ لیکن یہ نئے اجارہ دار گھرانے تھے جن کی فوجی-فاشسٹ حکومت کے لیے حمایت مکمل، مطلق اور کہیں زیادہ جارح تھی۔

یہاں بھی ہندوستان کے حالات اس پر پوری طرح فِٹ بیٹھتے ہیں۔ اڈانی اور امبانی جیسے نئے اجارہ داری والے گھرانے مودی حکومت کی حمایت میں کہیں زیادہ سرگرم رہے ہیں اور بدلے میں انھیں پرانے اور مضبوط اجارہ داری والے گھرانوں کے مقابلے میں اس طرح کی حمایت س ے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ پرانے گھرانے اپنی حمایت سے کسی بھی طرح پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹاٹا گروپ کے چیف نے ہندوتوا حکومت کے ساتھ اپنے گھرانے کی نزدیکی کو نشان زد کرنے کے لیے ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر کا دورہ بھی کیا۔

خاص طور سے نئے اجارہ دار عناصر اور عام طور سے اجارہ دار پونجی کے ساتھ مودی حکومت کے گہرے سانٹھ گانٹھ کو اکثر ’کرونی کیپٹلسٹ‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ مخاطبت ایک طرح سے اقتدار میں فاشسٹ عناصر اور اجارہ دار پونجی، خصوصاً نئی اجارہ دار پونجی کے درمیان سانٹھ گانٹھ کی گہرائی کی سطح کی عکاسی نہیں کرتا۔ اسے ’کارپوریٹ-ہندوتوا گٹھ جوڑ‘ کی شکل میں بہتر طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

درحقیقت سبھی سرمایہ دار ایک یقینی معنوں میں کرونی کیپٹلسٹ ہے: ہر کھیل کے اپنے اصول ہوتے ہیں، جن پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن ان اصولوں کے اندر دانشمندی کا استعمال ’کرونیز‘ کے حق میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے لیے، ایک ٹھیکہ لینے کے لیے ایک درخواست دہندہ کو کچھ منیمم پیمانوں کو پورا کرنا ہوتا ہے، لیکن ان پیمانوں کو پورا کرنے والے لوگوں میں سے ٹھیکہ انھیں مل جاتا ہے جن کے پاس مناسب ’کنکشن‘ ہے یا جن کا ’پس منظر‘ ٹھیک ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داری کے تحت ٹھیکے دینا کبھی بھی آنکھیں موند کر نہیں ہوتا، لیکن جب بھی جانبداری کی جاتی ہے تو ایک منظم طریقے سے اور ’کھیل کے اصولوں‘ کے مقرر دائرے میں۔

اس میں شبہ نہیں کہ اجارہ دار سرمایہ داری کے تحت ایسے سرمایہ داروں اور حکومت کے درمیان کا یہ رشتہ کہیں قریبی ہو جاتا ہے۔ روڈولف ہلفرڈنگ نے اپنی کتاب ’داس فنانج کیپٹل‘ میں بینکوں اور صنعتی پونجی کے درمیان ایک ’ذاتی گٹھ جوڑ‘ اور اس کی بنیاد پر ’مالیاتی اشرافیہ نظام‘ کے بننے کی بات کی تھی۔

کثیر ملکی کمپنیوں کے افسران کو سینئر سرکاری عہدوں پر تقرری دی جاتی ہے، اور اسی طرح سینئر سرکاری اہلکار آسانی سے کثیر ملکی کمپنیوں میں سینئر ایگزیکٹیو عہدے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس طرح حکومت کی پالیسی اجارہ دار والے سرمایہ کاروں کے مفادات کے موافق بنائی جاتی ہے، حالانکہ یہ سب بھی ’کھیل کے اصولوں‘ کے دائرے میں ہی ہوتا ہے۔

یہاں تک کہ جب سی آئی اے نے گوانٹے مالا میں جیکوبو اربینز کا تختہ پلٹ کیا، کیونکہ ان کے اراضی اصلاحات نے امریکہ کی یونائٹیڈ فروٹ کمپنی کو خاصہ نقصان پہنچایا تھا، یا جب سی آئی اے اور ایم آئی-6 نے ایران کے پریمیر موسادیگھ کا تختہ پلٹ کیا کیونکہ ان کی تیل صبعت کا نیشنلائزیشن کرنے سے برطانوی تیل کمپنی ’اینگلو-ایرانین‘ کی بالادستی ختم ہو گئی تھی، تب جارحانہ حکومتیں اجارہ دار سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت کر رہی تھیں۔ لیکن اس میں بھی ’کھیل کے اصولوں‘ کو حاشیے پر نہیں ڈالا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت آج تک رسمی طور سے اس تختہ پلٹ میں ہاتھ ہونے سے انکار کرتی ہے جس نے ایران کے شاہ کو اقتدار میں لایا۔

حالانکہ فاشسٹ عناصر کے اقتدار میں آنے سے یہ سب بدل جاتا ہے۔ اس میں ایک بنیادی بدلاؤ یہ بھی ہے کہ ’کھیل کے اصولوں‘ کو بھی بدل دینا تاکہ اجارہ دار سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو۔ ہندوستان کے معاملے میں بالکل ایسا ہی ہے۔ جب وزیر اعظم نے فرانس حکومت سے رافیل طیارہ کے مقامی مینوفیکچرر کی شکل میں انل امبانی کی تازہ بنی فرم کو منظور کرنے کے لیے کہا، تو کسی بھی عالمی ٹنڈر کا کوئی سوال نہیں تھا، اور نہ ہی کسی منیمم پیمانہ کو پورا کرنے کا۔ یہاں تک کہ سرکاری کمپنی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔

ایسے ہی ہنڈن برگ رپورٹ کے باوجود اڈانی گروپ کے معاملے میں جانچ کا کوئی حکم نہیں دیا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت کچھ کمپنیوں کا انتخاب کرنے اور انھیں دیگر ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ مقابلے میں ’فاتح‘ بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جو اجارہ دار پونجی، خاص طور سے نئی اجارہ دار پونجی اور ریاست کے درمیان بے حد نزدیکی رشتوں کو بیان کرتا ہے۔ ان ممکنہ ’فاتحوں‘ کو چننے میں کسی طرح کے ’کھیل کے اصول‘ نہیں ہوں گے جن پر عمل کیا جائے۔ اس میں سیدھے طور پر اجارہ دار سرمایہ کاروں کی حکومت بنانے کے لیے ریاست کی مدد شامل ہوگی، جن کے ساتھ ہندوتوا عناصر نے گٹھ جوڑ کیا ہے۔

دوسری طرف نئے اجارہ داری والے عناصر یہ یقینی کر کے رد عمل دیتے ہیں کہ ہندوتوا حکومت کو مکمل میڈیا حمایت ملے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ جو کچھ ٹی وی چینل تھوڑے بہت آزاد رہ گئے تھے، انھیں اڈانی کے ذریعہ خرید لیا گیا ہے تاکہ کارپوریٹ-ہندوتوا اتحاد کے لیے اتفاق رائے سے میڈیا حمایت حاصل کرنے کا عمل مکمل ہو سکے۔

مسولینی نے جسے ’اسٹیٹ اور کارپوریٹ طاقت کا ملن‘ کہا تھا، اس کی یاد دلاتے ہوئے اس پورے عمل کو صرف ’کرونی کیپٹلزم‘ کا معاملہ کہنا بڑی تصویر کو نہیں دیکھنے جیسا ہوگا۔ دراصل کرونی کیپٹلزم کا اظہار ہی یہ ماننا ہے کہ کہیں ایک ’شفاف‘، ’غیر کرونی‘ سرمایہ داری ہے، لیکن ہندوتوا طاقتوں کی حکومت میں اسے تہس نہس کر دیا جاتا ہے۔

سچ کہیں تو ایسی کوئی سرمایہ داری ہوتی ہی نہیں۔ سبھی طرح کی سرمایہ داری دراصل ’کرونی کیپٹلزم‘ ہے، لیکن اسٹیٹ اور پونجی کے درمیان کا رشتہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے اور اجارہ دار سرمایہ داری کے دور میں یہ دانت کٹی روٹی جیسا ہو جاتا ہے۔ یہ رشتہ مزید بدل جاتا ہے جب ڈور کارپوریٹ-ہندوتوا گٹھ جوڑ کے ہاتھ ہو۔

(بشکریہ:   پربھات پٹنائک،  پیپلز ڈیموکریسی)

ایک نظر اس پر بھی

کانگریس کے ریونت ریڈی بنے تلنگانہ کے نئے وزیر اعلیٰ؛ گورنر نے دلایا حلف

تلنگانہ کانگریس کے صدر ریونت ریڈی، جنہوں نے ۳۰؍ نومبر کو تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا آج تلنگانہ کے دوسرے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اُٹھایا۔ ان کی حلف برداری کی تقریب حیدرآباد میں لال بہادر شاستری اسٹیڈیم میں منعقد کی گئی تھی جہاں انہیں تلنگانہ کی ...

بابری مسجد کی شہادت کی۳۱؍ویں برسی؛ ممبئی میں اذان اور دعا کااہتمام

6 ڈسمبر1992 کو جس طرح ایودھیا میں شرپسندوں کے ہاتھوں تاریخی بابری مسجد شہید کی گئی تھی، اس کی شہادت کی۳۱؍ویں برسی کے موقع پر ممبئی شہر سمیت مضافات میں اذان دینے اوردعا کااہتمام کیا گیا۔ اور وہاٹس ایپ کے الگ الگ گروپ میں۶؍دسمبر کو یومِ سیاہ لکھ کربابری مسجد کی یاد تازہ کی گئی۔

میزورم میں حکمراں جماعت کے ساتھ وزیراعلیٰ خود بھی ہارگئے الیکشن

مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں انتخابی نتائج سامنے آنے کے اگلے روز یعنی پیر کوشمال مشرق کی ریاست میزورم میں ووٹوں کی گنتی کی گئی جس کے بعد انتخابی نتائج میں حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ  خود ریاست کے وزیراعلیٰ کو شکست سے دوچار ہونا پڑگیا۔

سمندری طوفان میچونگ سے چینائی میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ہوئی آٹھ؛ آندھرا میں بھی ایک لڑکے کی موت؛ میچونگ آج آندھرا اور اُڈیشہ کے ساحل سے ٹکرانے کے پیش نظرالرٹ جاری

سمندری طوفان میچونگ کی آمد سے پیر کو چینائی میں جو تباہی مچی تھی اور پانچ لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی، آج ایک بچہ سمیت مزید چار لوگوں کی موت واقع ہونے کی اطلاع موصول ہوئی ہے جس کے ساتھ ہی طوفان اور سیلاب سے متاثرہ ساحلی اضلاع میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر نو ہوگئی ہے۔

چینائی میں گردابی طوفان مچونگ نے مچائی تباہی، پانچ ہلاک، اسکول اور دفاتر میں ۵ ڈسمبر کو بھی چھٹی کا اعلان؛ 144 ٹرینیں کینسل، 33فلائٹس کارُخ بینگلور کی طرف موڑدیا گیا

طوفان مچونگ Michaung نے شہر سمیت چینائی کے مضافاتی علاقوں میں بڑے پیمانے پرتباہی مچادی ہے جبکہ طوفان کے نتیجے میں شدید بارش ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں سیلاب آ گیا ہے۔

دکشن کنڑا اور اڈپی میں نہیں ختم ہو رہی ہیں 'غیر اخلاقی پولیس گیری'- صحافی اور پولیس والے بھی آ رہے ہیں زد میں - 6 مہینوں میں درج ہوئے 10 معاملے

دکشن کنڑا اور اڈپی ضلع میں غیر اخلاقی پولیس گری کا بھوت قابو میں آتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کیونکہ امسال جون سے دسمبر تک یعنی گزشتہ 6 مہینوں میں غیر اخلاقی پولیس گری کے 10 معاملے درج ہوئے ہیں ۔ ان میں سے بعض معاملوں کی زد میں تو صحافی اور پولیس والے بھی آئے ہیں۔

غزہ پر اسرائیل کی شدید بمباری جاری،23 لاکھ عوام جائیں تو کہاں جائیں ؟ پانی اور بجلی سے بھی محروم ہیں رہائشی

ایک جانب غزہ کی پٹی کے 23 لاکھ رہائشیوں میں سے زیادہ تر پانی اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں اور دوسری جانب چھوٹے سے محصور علاقے میں مسلسل اسرائیلی بمباری  کی وجہ سے عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں،   عوام کے لیے  راہ فرار  اختیار کرنےاور جان بچانے کے لیے کوئی محفوظ ...

اردو کا تحفظ کیوں اور کیسے کیا جائے؟ ادبی و دینی سرمایہ کی بقا کے لیے نئی نسلوں کو اردو سکھانا ضروری ........ آز: عبدالغفارصدیقی

ہمارے ملک پر کم و بیش ایک ہزار سال مسلمانوں کی حکومت رہی،اس کے بعد ڈیڑھ سو سال انگریز حکمراں رہے۔اس پوری مدت میں سرکاری زبان غیر ہندی رہی،مسلمانوں کے دور میں فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی،برٹش دور حکومت میں حکمرانوں کی زبان اگرچہ انگریزی تھی لیکن دفتری زبان فارسی اور ...

غزہ: پروپیگنڈے سے پرے کچھ اور بھی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔ از: اعظم شہاب

غزہ و اسرائیل جنگ کی وہی خبریں ہم تک پہنچ رہی ہیں جو سامراجی میڈیا ہم تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ خبریں عام طورپر اسرائیلی فوج کی بمباریوں اور غزہ میں جان و مال کی تباہیوں پرمبنی ہوتی ہیں۔ چونکہ جنگ جیتنے کا ایک اصول فریقِ مخالف کو اعصابی طور پر کمزور کرنا بھی ہوتا ہے، اس لیے اس طرح ...

جب توپ ہوسامنے توکیمرہ نکالو۔۔۔۔۔۔از:مدثراحمد،شیموگہ، کرناٹک

جب بھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں اور مسلمانوںپر ظلم ہوتاہے،مسلمانوں کے گھر جلائے جاتے ہیں،مسلمانوں کو بدنام کیاجاتاہے،ایسے وقت میں میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرنےاور مسلمانوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا،مظلوموں کی آواز بننے کے بجائے ظالموں کے ...

بھٹکل کے ممتاز لیڈر عنایت اللہ شاہ بندری نے جے ڈی ایس کو کہاخیرباد؛ کیا ہے ان کا اگلا منصوبہ ؟

لوک سبھا انتخابات سے قبل کرناٹک میں بی جے پی اور جے ڈی ایس اتحاد پر مہر لگنے کی خبروں کے بعد 28 سال سے بھی زائد عرصہ سے جنتاپریوار کا حصہ بنے رہنے والے بھٹکل کے معروف لیڈرعنایت اللہ شابندری نے جے ڈی ایس کو خیرباد کردیا ہے۔ عنایت اللہ شاہ بندری نے بتایا کہ بی جے پی سے اتحاد کرنے کے ...

مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔