مسلم تھنک ٹینک: قوم مسلم کی ایک اہم ترین ضرورت ۔۔۔ از: سیف الرحمن

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 24th February 2023, 11:41 AM | مہمان اداریہ |

آج جب کہ پوری دنیا و اقوام عالم ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں اور پوری دنیا میں آگے بڑھنے کی مقابلہ آرائی جاری ہے جِس میں ہمارا مُلک ہندوستان بھی شامل ہے ، تو وہیں ملک کر اندر بھی موجود الگ الگ طبقات میں یہ دوڑ دیکھنے کو مل رہی ہے، اس ترقّی کے جدوجہد میں تمام ممالک اور اقوام کے دماغ کی حیثیت رکھنے والا ادارہ تھینک ٹینک کا ہوتا ہے، جس کے بغیر ایک قوم ویسے ہی ہے جیسے کہ بغیر دماغ والا مضبوط سے مضبوط انسان، کہ وہ مضبوط ہوتے ہوئے بھی بیکار و بے بس ہوتا ہے- یہ ادارہ موجودہ دور میں کسی بھی قوم یا ریاست کیلئے لازمی جز کی حیثیت رکھتا ہے جس میں بنیادی طور پر قوم و ریاست سے متعلق تمام محاذوں کے ماہرین اور نبّاض شامل ہوتے ہیں جو کہ ماضی و حال سے بہتر طریقے سے واقف ہوتے ہیں اور حال سے مستقبل کا بہتر اندازہ بھی کرلیتے ہیں- ان کا کام ہوتا ہے کہ وہ قوم و ریاست کے تمام حالات کا اور اسکے اسباب و حل کا گہرائی سے تجزیہ کرکے موجود اسباب و امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے طویل المدتی اور قلیل المدّتی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرے اور اس کےلئے قوم ان کو مکمل سہولیات مہیّا کرتی ہے تاکہ وہ مکمل سنجیدگی سے اپنے فرض کو ادا کر سکے، کیونکہ آنے والے دنوں میں قوم کا عروج و زوال مکمل طور پر اسی تھینک ٹینک باڈی پر منحصر ہوتا ہے- یہاں تک کہ حکومتی عہدیداران و قوموں کے لیڈران کے تقاریر،مباحثوں و ڈائیلاگ کے الفاظ و جملےتک بھی یہی متعین کرتے ہیں- آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے سب سے مضبوط نظر آنے والے ملک امریکہ کا جب بھی ذکر آتا ہے تو یہ بات بھی مانی جاتی ہے کہ عرب مخالف حملوں سمیت امریکہ کے تمام بڑے فیصلوں کیلیے ماحول سازی پینٹاگون میں بیٹھے تھینک ٹینکس نے کیے ہیں، جسے امریکہ کی حکومتیں بس عملی جامہ پہناتی رہی ہیں- اُس کے علاوہ امریکہ کے تمام بڑے و چھوٹے فیصلے انہیں تھینک ٹینکس کی ماحول سازی و مشوروں کی وجہ سے لیے گئے- آج امریکہ میں ۱۸۰۰ سے زیادہ حکومتی و غیر حکومتی تھینک ٹینکس ہیں جو کہ ریاست و عوامی اداروں کو ایسے منصوبوں سے نوازتے ھیں جو کہ انہیں دنیا کا بے تاج بادشاہ بنے رہنے میں معاون ہوتا ہے- اسی طریقے سے ہمارے ملک ہندوستان کے پاس ۵۰۰ سے زیادہ حکومتی و غیر حکومتی تھینک ٹینکس ہیں جو کہ ریاست کی پالیسی سازی میں اہم کردار نبھاتے ہیں ساتھ ہی ہمارے مُلک سے تعلق رکھنے والی وہ تنظیم جو کہ عالمی سطح پر سب سے بڑی تنظیم کی حیثیت رکھتی ہے یعنی آر.ایس.ایس, اُسکے پاس بھی درجنوں بڑے اور سینکڑوں چھوٹے تھینک ٹینکس ہیں جو کہ حکومت و حکومتی اداروں میں اُسکی مداخلت و نظریات کے فروغ سمیت تمام طرح کے کاموں کے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے- اب اگر ہم ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے قوم مسلم کے اوپر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی سطح پر تمام مسلم ممالک کا انحصار عالمی طاقتوں پر ہے اور ۵۶ مُسلم ممالک میں سے دفاعی محاذ پر بس ایک ملک پاکستان ہے جو کہ ایٹمی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے اگر تعلیمی اعتبار سے دیکھنے جائینگے تو اسمیں بھی چند مسلم ممالک ہیں جو کہ فہرست میں ۹۶ فیصد سے نیچے نظر آئینگے اور باقی زیادہ تر ممالک کا گراف بہت زیادہ نیچے دکھیگا اور اگر ٹیکنالوجی کے ٹاپ لسٹ کی فہرست پر غور کرینگے تو کوئی بھی مُسلم مُلک اسمیں نظر نہیں آئےگا- ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جب آپ تھینک ٹینک لسٹ پر نظر ڈالینگے تو دنیا کے مشہور اور بڑے تھینک ٹینکس کے فہرست میں کسی مسلم مُلک کا نام نظر نہ آئیگا، اگر کسی ادارے کے تجزیے میں کسی ایک مسلم ملک کا نام نظر آیا بھی تو فہرست کے اخیر میں ترکی کا نام نظر آ جائیگا- یہ ہے ایک خطرناک صورت حال جو کہ نہایت ہی فکر مندی کی بات ہے

اب اگر ہم عالمی سطح سے پیچھے آکر ملکی سطح پر تجزیہ کرتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ جو مسلم قوم چیخ چیخ کر ہندوستان میں اپنے شاندار ماضی کا ذکر کرتی ہے وہی قوم موجودہ وقت میں تمام ہی شعبوں میں سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی نظر آتی ہے- جہاں ایک طرف تعلیمی،سیاسی اور معاشی سطح پر یہ بالکل نچلے پائیدان پر نظر آتی ہے تو وہیں ان کے خلاف اسلامو فوبک نظریے کا حملہ اتنا شدید ہے کہ آج انکی نئی نسل اپنی شناخت سے بیزار نظر آرہی ہے اور ان کااخلاقی اقدار اتنا گر چُکا ہے کہ مسلم لڑکوں میں نشہ نے کھانے اور پانی کی سی حیثیت اختیار کر لیا ہے اور مسلم لڑکیوں میں زنا و ناجائز رشتے نے نشہ و وائرس کی سی شکل پا لیا ہے- تو وہیں ارتداد و مذہب بیزاری کے سیلاب میں نئی نسل خاص کر تعلیم یافتہ نوجوان سوکھے پتے کی طرح بہتے نظر آرہے ہیں - ان سب سے بڑھ کر منفی نکتہ یہ ہے کہ خود ان کو یہ بھی پتا نہیں ہیں کہ ابھی انکے حالات کیا ہے؟ ۷۰ سال کی تاریخ میں مسلمانوں کے حالات و اُسکے اسباب و حل پر ایک تجزیاتی رپورٹ سچر کمیٹی رپورٹ تیار ہوئی جس نے یہ خلاصہ کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلیمی،معاشی اور سیاسی حالات دلتوں سے بھی بدتر ہے اور ان کو مُلک کی دوسری آبادی بہت ہی منفی نظر کے ساتھ دیکھتی ہے- یہ سچر کمیٹی رپورٹ بھی حکومت ہند کی تشکیل کردہ کمیٹی نے تجزیہ کرکے تیار کیا ہے اور اس کے علاوہ نہ اس سے پہلے اور نہ ہی اس کے بعد اس قوم میں کوئی ایسا ریسرچ ہوا جو کہ ان کے حالات اور اس کے اسباب کا تجزیہ پیش کرے اور لائحہ عمل تیار کر سکے، یہاں تک کہ جو رپورٹ سچر کمیٹی نے پیش کر دیئے اُسکی بُنیاد پر بھی مستقبل کی منصوبہ بندی کا کوئی کام نہیں ہو پایا- آج جب کہ اس سچر کمیٹی کے بھی 15 سال ہو چُکے ہیں تب بھی ہمارے پاس ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جو کہ بتاسکے کہ ان گزرے سالوں میں ہم نے کن شعبوں میں بہتری حاصل کی ہے اور کن شعبوں میں اور زیادہ پچھڑ گئے ہیں 

اگر ہم قوم کی دینی و اخلاقی تعمیر کرنا چاہیں تو بھی ہمارے پاس کوئی ڈیٹا اپنے معاشرے میں بڑھتے جا رہے نشه،زنا اور مذہب بیزاری سے متعلق موجود نہیں ہے-

اب اگر ہم تھینک ٹینک کی بات کرے تو ہم پاتے ہیں کہ وہ قوم جو کہ شاندار ماضی پر فخر کرتے کرتے سارے شعبوں میں زوال کی گہری کھائی میں گر چکی ہے اور اس طرح سے زوال کے دلدل میں پھنسی کہ اُسکے نوجوان اب چند ہزار روپئے کما لینے کو ہی سب سے زیادہ غنیمت مان لیتے ہیں اور اُسکی لڑکیاں اُن طبقات کے بسترکی زینت تک بن رہی ہے جو کہ ان کے ایمان اور وجود دونوں کو ختم کردینے کے در پر ہیں - ایسی زوال کی شکار قوم کے پاس دور دور تک تھینک ٹینک جیسا کوئی ادارہ نظر نہیں آرہا ہے،جب کہ گزشتہ دہائیوں میں ان مسائل سے فکر مند ہوکر درجنوں تحریکیں و ہنگامے کھڑے کئے گئے اور سینکڑوں چھوٹی بڑی تنظیمیں بھی بنی لیکِن ہر تحریک و تنظیم نے کئی نیتا تو پیدا کئے لیکن ایسا کوئی تجزیہ کار و منصوبہ ساز ادارہ نہیں بنا سکے جو کہ اُن کے درد کا حقیقت میں مداوا کر سکے نہ کوئی ایسا پلیٹ فارم بن سکا جو کہ اسلام مخالف نظریاتی حملوں کا طویل المدت و روزانہ کی بنیاد پر مقابلہ کر سکے- چہ جائیکہ قوم نے خدمت قوم کے نام پر پیسے اس طرح بہائے ہیں اور بہا رہے ہیں کہ جیسے سیلاب میں پانی بہتا نظر آتا ہے - لہٰذا آج ضرورت ہے کہ فوری طور پر مسلم تنظیمیں اور ہمدردان ملت قومی،صوبائی و ضلعی سطح پر مضبوط تھینک ٹینکس بنانے پر کام شروع کریں اور یقین رکھیں کہ اس کے باوجود کہ آزادی کے بعد سے آج ۷۵ سال بعد تک ہم نے با صلاحیت افراد بنانے پر کام نہیں کیا ہے پھر بھی آج قوم میں ایسے سینکڑوں مخلص با صلاحیت نوجوان موجود ہے جو کہ تعلیمی، سیاسی، معاشی محاذوں پر بہترین منصوبہ بندی کا فرض ادا کر سکتے ہیں اور ایسے دماغ بھی موجودہے جو کہ نظریاتی جنگ میں سارے منفی و مخالف نیریٹیو کا بہترین کاٹ کرنے کے ساتھ ہی اپنے نیریٹو کو بھی موجودہ زمانے کی زبان میں بہت اچھے سلیقے سے پیش کر سکتے ہیں اور ایسی ماحول سازی کا کام انجام دے سکتے ہیں جس کے بعد تمام خارجی و اندرونی چیلنجز کا مقابلہ آسانی سے ممکن ہوسکتا ہے- ایسے ادارے ہونگے تبھی ملت میں تجارت کی بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ معاشی تقویت،بہترین تعلیمی منصوبہ بندی کے ساتھ سوشل سائنٹسٹ, صحافی، مضبوط لیڈران و عامر سبحانی جیسے ایڈمنسٹریٹر پیدا ہو سکینگے - تبھی وقف کی زمینوں کا جوکہ اتنی زیادہ تعداد میں ہے کہ شاید کتنے ریاستوں کا بجٹ اسکے برابر ہو ان زمینوں کا مثبت استعمال ممکن ہو سکے گا- لیکن ضرورت ہے کہ ہم تھوڑی سے ہنگامہ آرائی کو چھوڑ کر کچھ پیسہ اور وقت اس محاذ پر بھی خرچ کرنا سیکھیں اور یہ سمجھیں کہ جب تک پینٹاگون کے تھینک ٹینکس کی طرح تجزیہ ساز و منصوبہ ساز اِدارہ نہیں بنائینگے تب تک امریکہ کی طرح ترقّی یافتہ بننے اور اپنے مُلک میں آر.ایس.ایس و سورن سماج کی طرح مضبوط اور محفوظ بننے کا خواب صرف ایک بچکانہ مزاق ہے- ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ کام ٹوٹی چارپائی و پرانے موبائل کے ذریعے ممکن نہیں ہے, بلکہ اس کام کےلئے زمانے کے پروفیشنل طور کو مکمل طرپر اپنانا ہوگا اور تمام ضروری وسائل کو حاصل کرنے ہونگے ساتھ ہی اس کام کیلئے رضاکار تلاشنے کے بجائے مخلص پروفیشنل سپاہی کو رکھنا ہوگا کیونکہ رضاکاروں کی بُنیاد پر ۱۰ لاکھ لوگوں کا اجتماع تو کیا جا سکتا ہے لیکن جنگوں کو جیتنے کیلئے لاکھوں غیر تربیت یافتہ رضاکار کی نہیں بلکہ ہزاروں تربیت یافتہ سپاہیوں کو لگانا پڑتا ہے- یہ ایک ایسا پیچیدہ کام ہے کہ کبھی دس صفحات کی تحقیق کیلیے مہینوں کی محنت و لاکھوں کا خرچ آسکتا ہے تو ہمیں اسکی اہمیت کے مطابق خرچ کیلیے بھی تیار رہنا ہوگا اور ایسے میکنزم تیار کرنے ہونگے کہ یہ كام مُلک بھر میں درجنوں مراکز کے ذریعے تمام رکاوٹوں سے آزاد ہو کر خاموشی کے ساتھ انجام پاتا رہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر تمام قومی، ریاستی و ضلعی سطح کی تنظیمیں اور افراد حقیقی تعمیر کی حقیقی جدوجہد کو انجام دے سکے 

اخیر میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جب بیسویں صدی کے اخیر میں سرد جنگ اپنے اختتام پر تھا تو ایک موضوع بحث میں تھا کہ آنے والا صدی اسلام و مغرب کے بیچ نظریاتی جنگ کا ہوگا اور یقینا ہماری صدی میں اصل جنگ اسلام بنام مغرب کی جنگ ہے جس میں ہمارے ملک میں سنگھ پریوار بھی ہمارے سامنے کھڑا ہے- لہذا ضرورت ہیکہ ہم اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہمارے منصوبہ ساز ادارے میں موجود تمام لوگ مضبوط اسلامی عقیدہ کے حامل اور نظریہ اسلامیہ کے معاملے میں مضبوط ہوں اور ایسے افراد بھی اس کا حصہ ہوں جوکہ مسائل کے تجزیہ و منصوبہ سازی میں قرآن و حدیث اور سیرت نبوی سے روشنی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اگر ہم نے اس نکتہ کو نظر انداز کیا تو یقین مانیں ہم اپنی جنگ کو ابتداء میں ہی ہار جائنگے اور ہمارا جدوجہد ابتدائی مرحلے میں ہی ناکام ہو جائیگی-

(مضمون نگار سیف الرحمن صاحب ملت ٹائمس کے بیورو چیف اور انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر ہیں)

ایک نظر اس پر بھی

کارپوریٹ گھرانوں اور ہندوتوا کا ’سازشی گٹھ جوڑ‘، مودی حکومت میں ’کھیل‘ کے سبھی اصول منہدم!

فاشسٹ عناصر ہمارے جدید سماج میں رہتے ہیں، لیکن عموماً وہ بہت ہی چھوٹے طبقہ کے طور پر حاشیے پر پڑے رہتے ہیں۔ وہ مین اسٹریم میں تبھی آ پاتے ہیں جب انھیں اجارہ داری والی پونجی کی مدد ملے کیونکہ اسی سے ان عناصر کو اچھا خاصہ پیسہ اور میڈیا کوریج مل پاتا ہے۔ یہ مدد کب ملتی ہے؟ تب، جب ...

عالمی کپ فٹبال میں ارجنٹینا کی شاندار جیت پر ہندی روزنامہ ہندوستان کا اداریہ

کھیلوں کے ایک سب سے مہنگے مقابلے کا اختتام ارجینٹینا  کی جیت کے ساتھ ہونا بہت خوش آئندہ اور باعث تحریک ہے۔ عام طور پر فٹبال کے میدان میں یوروپی ملکوں کا دبدبہ دیکھا گیا ہے لیکن بیس برس بعد ایک جنوبی امریکی ملک کی جیت حقیقت میں فٹبال کی جیت ہے۔

ہر معاملے میں دوہرا معیار ملک کے لیے خطرناک ۔۔۔۔ منصف (حیدرآباد) کا اداریہ

سپریم کورٹ کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ (ای ڈی) کی سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی ۔ مرکزی ایجنسی نے منی لانڈرنگ کیس میں ینگ انڈیا کے  دفاتر کو مہر بند کردیا۔  دہلی  پولیس نے کانگریس کے ہیڈ کوارٹرس کو عملاً  پولیس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا۔ راہول اور ...

نوپور تنازع: آخر مسلمان جوابی غلطیاں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔تحریر:قمر وحید نقوی

دو ہفتے بعد نوپور شرما کے تبصرے کے تنازع پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ بالکل مضحکہ خیز اور سیاسی حماقت کا ثبوت ہے۔ اتنے دنوں بعد ان کا غصہ کیوں بھڑکا؟ کیا ان کے پاس اس سوال کا کوئی منطقی جواب ہے؟

تقسیم کی  کوششوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی و خیرسگالی پر زوردینا ضروری : ملک کے موجودہ حالات پر کنڑا روزنامہ ’پرجاوانی ‘ کا اداریہ

ملک کے مختلف مقامات پر عبادت گاہوں کے متعلق جو  تنازعات پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں و ہ دراصل سماجی اور سیاسی تقسیم کا مقصد رکھتی ہیں۔ ایسی کوششوں کے پیچھے معاشرے میں ہنگامہ خیزی پیدا کرنے کامقصدکارفرما ہےتو ملک کے سکیولرنظام کو کمزور کرنے کا مقصد بھی اس میں شامل ہے۔