چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ کا آر ایس ایس پر حملہ: کہا،’ وہ فسادات بھڑکاکر شہر تباہ کر یں گے‘
رائے پور ، 14؍اکتوبر (ایس او نیوز؍ایجنسی) صوبہ کے کوردھاشہر میں فرقہ وارانہ تشدد کے بہانے بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔ دریں اثناء ریاست کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے آر ایس ایس اور بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہاکہ یہ لوگ صرف دو چیزوں میں مہارت رکھتے ہیں۔
ایک تبدیلی مذہب ، دوسر ے فرقہ واریت۔ یہ لوگ چھوٹے چھوٹے واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر اس سے سیاسی مفاد تلاش کرتے ہیں ، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اب چھتیس گڑھ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ لوگ(آرایس ایس؍بی جے پی) کسان، مزدور ، آدی باسی ، اوبی سی کے حقوق کیلئے بات نہیں کر سکتے،لیکن وہ تبدیلی مذہب اور فرقہ واریت پر فسادبھڑکانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کورونا کی وجہ سے کاروبار طویل عرصے سے بند تھا، اب اِسے کھول دیا گیا ہے ، تو یہ لوگ فساد بھڑکاکر شہر کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن ہم ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی بھی واقعہ کو ہلکے سے نہیں لیا جانا چاہیے۔ وہ ایک چھوٹے سے واقعے کو بھی بڑا بنانا چاہتے ہیں۔ اگر دو لوگ لڑ رہے ہوں تو یہ ہوسکتا ہے کہ دونوں بھائی ہوں۔ دو ذاتوں یا دو مختلف مذاہب کے لوگ ہو سکتے ہیں، لڑائی آپس میں ہوتی ہے۔ لیکن بی جے پی ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے ، ہمیں اس پر سخت نظر رکھنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ 15 سالوں سے چھتیس گڑھ میں آر ایس ایس کے لوگوں کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔
ریاستی وزیراعلیٰ نے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا کہ ساورکر نے مہاتما گاندھی کے کہنے پر انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ اس سے متعلق سوال پر بھوپیش بگھیل نے کہا کہ یہ نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ’ اُس وقت مہاتما گاندھی کہاں تھے ، وردہ میں ، وہ (ساورکر) کہاں تھے سیلولر جیل میں۔ دونوں کا رابطہ کیسے ہوا؟
ساورکر نے جیل میں رہتے ہوئے رحم کی درخواست دائر کی۔ ایک بار نہیں بلکہ چھ بار‘ ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساورکر معافی مانگ کر رِہا ہونے کے بعد ساری عمر انگریزوں کے ساتھ رہے۔ انگریزوں کیخلاف ایک لفظ نہیں بولا، اور انگریز تقسیم اور حکمرانی کے ایجنڈے پر کام کرتے رہے۔ 1925 میں جیل سے باہر آنے کے بعد ساورکر نے پہلے دو قومی نظریہ پیش کرنے والے تھے۔ ساورکر نے یہ نظریہ 1925 میں پیش کیا تھا۔ جبکہ اسی طرح کی قرارداد مسلم لیگ نے 1937 میں منظور کی تھی۔ اِن دونوں (ساورکر اور مسلم لیگ) فرقہ پرست طاقتوں نے ملک کی تقسیم کا خاکہ تیار کیا تھا ۔