بھٹکل: آسارکیری مندر میں شادی کی رسم ادا کرنے سے برہمن پجاری نے کیا انکار؛ نامدھاری سماج کے نائب صدر نے کیا تشویش کا اظہار

بھٹکل:29؍ جنوری(ایس اؤ نیوز ) ہم 21ویں صدی میں ہیں لیکن 18ویں اور19ویں صدی کی طرح دھرم اور ذات کے نام پر ظلم وہراسانی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 21ویں صدی میں بھی اسی ذات پات اور چھوت چھات کا نظام ہرجگہ چھایا ہواہے۔ اس کےلئے آسارکیری کی نشچل مکی شری وینکٹ رمن مندر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں شادی کی رسم ادا کرنے سے برہمن پجاری نے اس لئے انکار کردیا کہ وہ اونچی ذات والے ہیں۔ ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق پجاری کے انکار پر نشچل مکی وینکٹ رمن مندر انتظامیہ کے نائب صدر شنکر بھوانی نے نہایت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آسارکیری کے وینکٹ رمن مندر میں منعقدہ مذہبی پروگرا م میں افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 18ویں اور19ویں صدی میں اسی مذہبی ظلم و ہراسانی اور ذات پات کے خلاف نارائن گرو نے سخت اور بڑے پیمانےپر جدوجہد کی تھی ۔ افسوس اب 21ویں صدی میں بھی وہی ذات پات کا نظام جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں اس مندر کے پجاری کو بدلاگیا تھا اور یہاں برہمن پجاری کی جگہ پر مذہبی تعلیم حاصل کرنےو الے نامدھاری سماج سے ہی تعلق رکھنے والے کو مندر کے پجاری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اسی طرح شرالی کے شارداہولے میں واقع نامدھاری سماج کا شری ہلے کوٹے ہنومنت مندر میں بھی نامدھاری طبقے والے کو ہی پجاری کی زمہ داری سونپی گئی ہے۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نامدھاریوں کو اچھوت سمجھا جارہاہے اور اسی وجہ سے آسارکیری اورشارداہولےمندرہال میں ہونےو الی شادیوں کی رسم اداکرنے سے برہمن پجاری انکار کررہےہیں، شنکر بھوانی نے بتایا کہ برہمن پجاریوں کو ان دونوں مندروں کے ہال میں ہونے والی شادیوں میں مذہبی رسم کی ادائیگی کےلئے بلایا جاتاہے تو ہمیں یعنی نامدھاریوں کو شودر سمجھ کر یہاں آنے سے انکار کردیتے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس طرح کا فیصلہ لئے جانےکی جانکاری اڈگنجی کے پجاری نے دی تھی۔
بھوانی شنکر نے بتایا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہندو دھرم میں سب ایک ہیں ، لیکن اگر سب ایک اور متحد ہیں تو اس طرح کا برتاؤ کرنا کہاں تک صحیح ہے۔