این ڈی ٹی وی کے ساتھ ساتھ رویش کمار کا پروگرام بھی خطرے میں!۔۔۔۔۔ از: ظفر آغا

Source: S.O. News Service | Published on 28th August 2022, 11:59 AM | اسپیشل رپورٹس |

لیجیے اب رویش کمار کا مشہور و معروف ٹی وی پروگرام خطرے میں پڑ گیا۔ یہ خبر تو آپ سن ہی چکے ہیں کہ این ڈی  ٹی وی نیٹورک میں اڈانی گروپ نے تقریباً 30 فیصد ملکیت حاصل کر لی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اڈانی گروپ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کمپنی کے 26 فیصد شیئر اور خریدنے والی ہے۔ الغرض جلد ہی یہ امکان ہے کہ این ڈی ٹی وی پر اڈانی گروپ کا قبضہ ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ جب اڈانی گروپ این ڈی ٹی وی کا مالک ہوگا تو پھر بھلا رویش کمار جیسے مودی حکومت کے مخالف کو کمپنی کیوں ٹکنے دے گی۔ اس لیے یہ بہت ممکن ہے کہ رویش کمار کا مشہور و معروف ٹی وی پروگرام آنے والے دنوں میں بند ہی ہو جائے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو، لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ رویش کمار کے پروگرام پر کالے بادل کا سایہ ہو چکا ہے۔

لیکن مسئلہ محض ایک رویش کمار کا نہیں ہے۔ اڈانی گروپ کا این ڈی ٹی وی پر قبضہ کرنے کی کوشش سے مسئلہ اب یہ ہے کہ کیا اب اس ملک میں آزاد اور لبرل میڈیا کی کوئی بھی گنجائش بچی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر آپ میڈیا کے موجودہ منظرنامہ پر نگاہ ڈالیں تو چہار سو میڈیا پر سَنگھ کے ہندوتوا نظریہ کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جہاں تک ٹی وی نیٹورک، جس کو الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے، اس پر مودی حکومت اور ہندوتوا ایجنڈا کا بول بالا ہے۔ لے دے کر محض ایک این ڈی ٹی وی نیٹورک تھا جو حکومت کے ہاتھوں بکا ہوا نہیں نظر آتا تھا۔ چنانچہ وہاں اڈانی گروپ کی آمد سے اس نیٹورک کی آزادی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ یعنی اس طرح ٹی وی جرنلزم پوری طرح مودی حکومت کے قبضے میں ہوگی۔ اب ذرا موجودہ دور کی ڈیجیٹل جرنلزم دیکھیے تو وہاں بھی بی جے پی کا بول بالا ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس میڈیم میں ’دی کوئنٹ‘ نام کی ویب سائٹ نے بطور لبرل اور حکومت ناقد کے طور پر اپنا مقام بنایا تھا۔ لیکن اڈانی گروپ ابھی حال میں اسکا پورے طور پر مالک ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ پلیٹ فارم بھی گیا۔ ایک دو ’دی وائر‘ جیسی ویب سائٹس ہیں، لیکن حکومت اور بی جے پی مخالف ان ویب سائٹس کی حیثیت نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہے۔ ادھر پرنٹ یعنی اخباروں پر نگاہ ڈالیں تو وہاں پہلے سے ہی سَنگھ کا قبضہ تھا۔ ایک دو اخبارات جو اب بھی حکومت کی قصیدہ خوانی نہیں کرتے ان پر ای ڈی جیسی ایجنسیوں کا دباؤ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں این ڈی ٹی وی کا اس کے مالک پرنے رائے کے ہاتھوں سے نکل جانا بس یوں سمجھیے کہ ہندوستان میں آزاد صحافت کی موت کے مانند ہے۔

یوں تو پرنے رائے اب بھی اڈانی گروپ کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن اڈانی جیسے ذی اثر سرمایہ دار کا ان کے لیے مقابلہ کر پانا مشکل ہے۔ دراصل پرنے رائے بذات خود ایک اعلیٰ درجے کے صحافی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ہندوستان میں بابائے ٹی وی صحافت ہیں تو غالباً یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ سنہ 1980 کی دہائی میں جب اس ملک میں دوردرشن کے علاوہ کوئی پرائیویٹ چینل نہیں ہوتا تھا تب انھوں نے دوردرشن پر الیکشن کوریج کے ذریعہ ٹی وی صحافت کو ایک نیا موڑ دیا تھا۔ پھر ان کے ’دی ورلڈ دِس ویک‘ پروگرام نے بھی دوردرشن پر زبردست دھوم مچائی تھی۔ پھر جیسے ہی حکومت نے پرائیویٹ نیوز چینل کی اجازت دی تو پرنے رائے نے این ڈی ٹی وی نیٹورک کے نام سے اپنا چینل شروع کیا۔ اس طرح ملک میں این ڈی ٹی وی پہلے انگریزی ٹی وی نیٹورک کے طور پر ابھرا۔ اس چینل پر صحافت اس قدر اعلیٰ معیار کی تھی کہ یہاں سے بھی راجدیپ سردیسائی، برکھا دت، رویش کمار اور دیگر ٹی وی اینکر مشہور ہوئے اور ٹی وی صحافت میں ان سب نے دھوم مچائی۔ ایسے شاندار اور آزاد صحافت کا پرچم لہرانے والا این ڈی ٹی وی اب خطرے میں ہے، جو ملک اور اس ملک کی صحافت کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔

دراصل مودی حکومت ملک میں حکومت کی کسی بھی قسم کی نکتہ چینی کو سنہ 2024 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل کچل دینا چاہتی ہے۔ سیاست کے میدان میں جو ذرا بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کے دروازے پر ای ڈی کنڈی کھٹکا دیتی ہے۔ شاید ہی ملک کا کوئی ایک بھی حکومت مخالف سیاستداں بچا ہو جس کے خلاف ای ڈی کا سمن نہیں پہنچا ہو۔ جہاں جہاں ریاستوں میں اپوزیشن کی حکومت ہے، وہاں ہزاروں کروڑ خرچ کر کے حکومت گرا دی جاتی ہے۔ یعنی اگلے چناؤ میں بی جے پی اور مودی کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی بھی نہ بچے۔ اس طرح مودی حکومت نے سیاست پر تو اپنا قبضہ جما لیا ہے، اب وہ یہی عمل میڈیا کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ اس لیے این ڈی ٹی وی جیسا آزاد صحافت کرنے والا ٹی وی چینل حکومت کے نشانے پر ہے۔ اس طرح مودی جی ملک میں ایک نئی جمہوریت کا آغاز کر رہے ہیں جس میں حکومت کی مخالفت کی کہیں کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ این ڈی ٹی وی پر اڈانی گروپ کا حملہ اسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...