انصاف چاہتی تھی، انتقام نہیں: بلقیس بانو
نئی دہلی:8/مئی(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) 2002کے گجرات مسلم کش فسادات کے دوران میں اکثریتی فرقے کی بھیڑ کی طرف سے اجتماعی آبروریزی کی شکار ہوئیں بلقیس بانو اب اپنی نئی زندگی شروع کرنے کی تیاری کررہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ ان کی بڑی بیٹی وکیل بنے گی۔فسادات میں ان کے خاندان کے زیادہ تر ارکان کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔ان کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کے معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کے چار دن بعد آج بلقیس نے یہاں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ انصاف چاہتی تھی،انتقام نہیں۔عدالت نے معاملے میں قصور وار 12لوگوں کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا تھا، ساتھ ہی سات افراد کی رہائی کو بھی منسوخ کر دیا تھا۔ان میں پولیس اہلکار اور ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔واقعہ کے وقت بلقیس حاملہ تھیں اور فساد ات میں ان کی ساڑھے تین سالہ بیٹی کو حملہ آوروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا تھا، اب انہیں امید ہے کہ فیصلے سے انہیں اچھی زندگی جینے میں مدد ملے گی۔ان کے ساتھ ان کے شوہر اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی بھی تھی۔انہوں نے کہاکہ بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ بہت اچھا ہے اور میں بہت خوش ہوں، میرا خاندان بھی خوش ہے، میں اس لیے بھی زیادہ خوش ہوں کہ واقعہ کورفع دفع کرنے میں ملوث پولیس اہلکار اور ڈاکٹروں کو بھی مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔بلقیس نے کہاکہ میری بڑی بیٹی وکیل بننا چاہتی ہے، میں اس بات کو یقینی بناؤ ں گی کہ میرے بچے تعلیم حاصل کریں اوراپنے لیے نیا راستہ منتخب کریں۔ان کے شوہر یعقوب دودھ کا کاروبار کرتے ہیں، اس دوران ملزمان کی طرف سے ملی دھمکیوں اور خاندان کو ہوئی مشکلات کے بارے میں پوچھے جانے پر یعقوب آبدیدہ ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ بلقیس کی طرح سبھی خواتین کو انصاف ملے۔انہوں نے کہا کہ گائے تحفظ قوانین اور گؤ رکشک تنظیمیں بھی میرے خاندان کے مویشی کے کاروبار کو لے کر دھمکی دیتے ہیں، اس لیے انہیں آمدنی کے لیے نیاراستہ تلاش کرنا ہوگا۔حقوق انسانی کے سرگرم کارکن فرح نقوی نے کہا کہ خاندان کو 15سال میں 25بارپناگھرتبدیل کرناپڑاہے، کیوں کہ پیرول کے دوران ملزم بلقیس کو دھمکی دیتے تھے۔بلقیس نے کہاکہ اتنے سالوں میں مجھے انصاف کے لیے اپنی لڑائی کے دوران حکومت سے کوئی حمایت نہیں ملی۔