ہندوستان میں دہشت گردی دیش ورودھی اور دیش بھکتی؟ از:نور محمد خان ممبئی
وطن عزیز نے جب آزادی کی دہلیز پر قدم رکھا تب عوام کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ملک کے مختلف ریاستوں، شہروں و علاقوں سے متعدد تنظیمیں دہشت گردی کی راہ اختیار کر رہی ہیں جو مستقبل میں سالمیت اور یکجہتی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے آزادی کے بعد سے لیکر تادم تحریر ملک کی سیاست نے اگر فسادات کی فصل کو مسلمانوں کے خون سے سینچ کر ہرا بھرا کیا ہے تو دائیں اوربائیں بازو کی جماعتوں نے دہشت گردی کو فروغ دے کر قانون اور سیاست پر سوالیہ نشان لگا دیا لیکن ہندی سیاست کی ڈکشنری میں نکسلواد اور ماؤواد کو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں رکھا بلکہ پڑوسی ملک پاکستان نے اسی نظریہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ملک کے پر امن ماحول میں’’دیش بھگتی اوردیش ورودھی‘‘موضوع بحث بنی ہوئی ہے چنانچہ مذکورہ بالا موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے 67سالہ دیش بھکتی کا مطالعہ کرتے ہیں۔اول ذکر یہ ہے کہ دنیا میں نسل پرستی اور قوم پرستی کے جنون نے متعدد دہشت گرد تنظیموں کو جنم دیا۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو جرمنی اس کا سب سے بڑا مرکز رہا ہے مغربی جرمنی کے بادرمنہاف دہشت گردوں کی سب سے بڑی اور خطرناک جماعت رہی ہے
بلکہ جاپان کی ریڈ آرمی نے اس میدان میں کارنامے انجام دیئے بین الاقوامی سطح پر اروگومے، برازیل اور آئر لینڈ میں گوریلا جنگ اور دہشت گردی کے کافی بھیانک واقعات ہوئے رفتہ رفتہ یہ آگ مغربی ممالک سے فلسطین کی سرزمین پر طاقت کے بل بوتے یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد مشرق وسطٰی کی سر زمین تک پہنچی اور ہندوستان کی سر زمین پر بیسویں صدی کے نصف آخر میں متعدد دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئی۔ بائیں بازو کی دہشت گرد جماعتوں کے علاوہ بہار میں دائیں بازو کی عالمگیر تنظیم آنند مارگ جس کے بانی پی آر سرکار (آنند مورتی) تھے اسی طرح بنگال میں "امرا بنگالی،، جو علیحدہ بنگالستان کی آرزو مند تھی_
کہتے ہیں کہ1967 کو مغربی بنگال کے نکسلباری گاؤں میں نکسلباری تحریک کی ابتداء ہوئی اور اس وقت سے لیکر 1987 تک بائیں بازو کی 35انتہاپسند تنظیمیں قائم ہوئی آندھراپردیش و بہار میں %90 فی صد توڑ پھوڑ کے حادثات میں یہ لوگ ملوث تھے قابل غور بات یہ ہے کہ نکسلباری نے ریاست میں جس طرح سے تشدد کی چنگاری سے پر امن ماحول کو خراب کیا تھا اس سے خوش ہو کر چین کے ریڈیو سے نکسلیوں کو اعلانیہ مبارک باد دی گئی،، ان تنظیموں نے انتظامیہ اور قانون کیمحافظ کو اس حد تک خوف زدہ کردیا کہ نظم و نسق تھم گیا بہار اور آندھراپردیش کے بعد مہاراشٹر و مدھیہ پردیش میں پیپلز وار گروپ سرگرم ہوئی لیکن حکمراں جماعتوں اور ذرائع ابلاغ میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ انہیں دہشت گرد تنظیم قرار دے دیتے؟
مذکورہ بالا درج تنظیموں نے تشدد کی راہ اختیار کر کے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ زمینداروں اور مالداروں کی املاک کو لوٹ لیا ان تنظیموں کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمیں عدل و انصاف اور حقوق یکساں طور پر نہیں دیے اس لئے حکومت اور قانون کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا یونایئٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کی تشکیل 1979 میں کالج کے طلبہ نے کی یہ لوگ مسلح کارروائیوں کے ذریعے ریاست آسام کو آزاد کرانا چاہتے تھے 1983 میں آسام اسمبلی انتخابات میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں کئی پولیس افسران کی جانیں گئیں ۔ الفا نے بھوٹان کے پہاڑی علاقوں کے علاوہ ارونا چل پردیش اور ناگالینڈ میں ٹریننگ سینٹر قائم کئے اور دہشت گردی کے سائے میں ریاستوں کی عوام کو سانس لینا پڑا آسام میں بوڈولینڈ موومنٹ، جھارکھنڈ موومنٹ کی تخریب کاری سے پنجاب کوتقویت ملی اور خالصتانی دہشتگردی کی ابتداء ہوئی ریاست میں خالصتانیوں نے لوٹ مار قتل و غارت گری سے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا حکومت ہند نے 1984 میں آپریشن بلیو اسٹار شروع کیا جس میں کئی خالصتانی دہشت گرد مارے گئے لیکن اس کے ردعمل میں ملک نے ایک عظیم شخصیت کو کھودیا سکھ دہشت گردوں نے محترمہ اندراگاندھی کا قتل کر دیا چنانچہ 1988 میں دہشت گردوں نے گولڈن ٹیمپل پر اپنے اثرات ظاہر کیے تب ایک مرتبہ اور آپریشن بلیک ٹھنڈر اا شروع ہوا اور گولڈن ٹیمپل کو دہشت گردوں سے خالی کرا لیا گیا جس کی وجہ سے تشدد کے واقعات میں کمی ہونے لگی لیکن۔
دوئم ذکر یہ ہے کہ آزادی کے بعد ملک میں سب سے بڑا سنگین مسئلہ وادی جموں کشمیر کا تھا تقسیم ہند کے بعد سرحدوں پر خون ریز تصادم ہوا اور علیحدہ کشمیر کا مطالبہ عروج پر پہنچا آزاد ریاست کی چنگاریاں وادی میں گونجنے لگی جس کے پیش نظر 1964 میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وجود میں آئی اس کے رہنما مقبول احمد بٹ اور میجر امان اللہ خان تھے یہ لوگ حق خود مختاری کا مطالبہ کشمیری باشندوں کے لئے کررہے تھے فرنٹ کی سرگرمیاں تشدد کی راہ اختیار کر رہی تھی کشمیر میں سیاسی و فوجی بدعنوانیوں، غربت و افلاس بے روزگاری اور پسماندگی کے سبب اور زیادہ بے چینی میں اضافہ ہوا پاکستان نے کشمیر میں تشدد کی تشویش ناک حالت کو اور خطرناک بنادیا کیونکہ جس طرح سے بہار، بنگال اور کلکتہ کے علاو ہ آندھراپردیش کے نکسلیوں کو چین کی حمایت حا صل تھی اسی طرح کشمیر میں پڑوسی ملک پا کستان کی حمایت حاصل تھی ہند پاک تقسیم کے بعد سے ہی پاکستان کشمیری عوام کے کاندھوں پر سیاسی بندوق رکھ کر عوام کو استعمال کرنے لگا جس کا خمیازہ آج تک کشمیریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
1949 میں ایک طرف دہشت گرد تنظیمیں ملک مخا لف سرگرمیوں میں مصروف تھیں تو دوسری طرف ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ شر وع کر دیا جس کی ابتداء بابری مسجد میں بت رکھ کر مسجد کے تقدس کو پامال کرنے سے شروع ہوئی اور اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف خانہ جنگی کا اعلان کردیا۔ فسادات کی آڑ میں مسلمانوں کا قتل عا م کیا جانے لگا 1980 کے دور میں آر ایس ایس، وی ایچ پی، بجرنگ دل، جیسی تنظیموں نے ملک کے قانون کو بالائے طاق رکھ کر بابری مسجد کے خلاف تحریک شروع کی لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں رتھ یاترا نکال کر ملک کی سالمیت پر سوالیہ نشان لگا دیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی_
اب سوال یہ ہے کہ آنند مارگ سے لیکر ناگا لینڈ، آسا م، آندھراپردیش، مہاراشٹر، مدھ پردیش، جھار کھنڈ وغیرہ کی دائیں و بائیں با زو کی تشدد پسند جماعتوں اورناگپور ہیڈ کوارٹر کی ذیلی شاخوں میں وشوہندو پریشد تک تمام تنظیموں نے ملک کے سرکاری اور عوام کی املاک کو نقصان پہنچا کر کیا دیش بھکتی کا ثبوت دیا ہے؟
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک طرف نکسل واد یوں نے اپنی اپنی ریاستوں کو آزاد کرانے اور حقوق کی حصولیابی کے لئے ملک مخالف تحریکیں چلائی جو حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ آئین و قوانین کی نظر میں دہشت گردی نہ ہو کر دیش بھکتی تھی اور ایک انار سو بیمار کی طرح سیکولر ملک کو ہندو راشٹر بنانے والی ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے دیش بھکتی کا ثبوت دے رہی ہیں کیا قانون کی نظر میں یہ بھی حب الوطنی ہے؟ کیا آزادی سے لیکر آج تک جموں کشمیر کو چھوڑ کر ملک کی تمام ریا ستو ں کے مسلمانوں نے کسی بھی ریاست کی آزادی کے لئے ملک کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ہے؟
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے فرقہ پرستوں نے ممبئی شہر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ممبئی شہر 93 میں سلسلے وار بم دھماکے ہوئے جس پر عدالت عالیہ نے کہا کہ عمل کا ردعمل تھا! یہ اور بات ہے لیکن مسجد کی شہادت اور بم دھماکوں کے بعد ملک میں ایسی فضا تیار کی گئی کہ مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا جانے لگا۔ گزشتہ 25 برسوں میں ملک کے مختلف شہروں سے سینکڑوں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا بلکہ یہ بھی کہا جانے لگا کہ دینی درسگاہوں میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اور اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے لیکن تادم تحریر ملک کے نام نہاد وفادار یہ ثابت کر نے سے قاصر ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہے؟ کیونکہ عدلیہ نے عدل و انصاف کے علم کو جانبدارانہ نظریہ سے نہیں دیکھا اور اپنے فرائض کو انجام دیتے ہوئے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مسلمانوں کو باعزت بری کردیا اور یہ بھی کہا کہ ایسے افسران پر کارروائی ہونی چاہیئے جو ایک مخصوص طبقہ کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ دہشت گرد بنانے والی فیکٹریوں پر آج تک کارروائی نہیں کی گئی_
آخر بات یہ ہے کہ 67 برسوں کی تاریخ شاہد ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ہندی مسلمانوں کو سیاست نے خوف کے سائے میں رکھا تاکہ مسلمانوں کی جانب سے اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے اور اس کے برعکس ایسی تنظیموں کو وجود میں لایا جائے جو ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہے اور اس کا الزام مسلمانوں کے ماتھے پر چسپاں کر دیا جائے افسوس کی بات یہ ہے کہ کم ظرفی کا مظاہرہ کرنے والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ جہاں اسلام ہے وہاں تشدد نہیں ہے اور جہاں تشدد ہے وہاں اسلام نہیں ہے اسلام میں دہشت گردی کی گنجائش بالکل نہیں ہے اگر مسلمان دہشت گرد ہوتا تو ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں مظلوم مسلمانوں کی اکثریت نہیں رہتی در اصل عالمی سیاسی برادری کا فلسفہ ہے کہ حصول اقتدارکیلئے ملک مخالف پالیسیوں پر کیوں نہ عمل کرنا پڑے آخر سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔(ایس او نیوز/آئی این ایس )