منگلورومیں ہندو جن جاگرتی سمیتی نے لگائے ’ہندو راشٹرا‘ قائم کرنے کے بینرس، مختلف تنظیموں نے کی مذمت؛ انتظامیہ کی خاموشی پر اُٹھ رہے ہیں سوالات
منگلورو24؍جنوری (ایس او نیوز) شہر میں ہندو جن جاگرتی سمیتی کی جانب سے بہت سارے مقامات پر ایسے بینرس لگائے گئے ہیں جس میں 27جنوری کو ’ہند و راشٹراکے قیام ‘ پر غور کرنے کے لئے اجلاس منعقد کیے جانے کا اعلان ہے۔ان بینر س میں کہا گیا ہے کہ ’ہندوؤ! ہم سب متحد ہوکر ہندو راشٹراقائم کریں‘، ’ہندوؤ! اجلاس میں شریک ہوکر اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرو۔‘
کھلے عام دستور ہند کی مخالفت کرنے والے ان بینرس کے منظر عام پر آتے ہی سوشیل میڈیا پر اس کے خلاف مذمت شروع ہوگئی ہے۔ سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ جب ریاست میں کانگریس او رجنتادل کی سیکیولر حکومت ہے تو پھر ایسے بینرس لگانے کا موقع کیسے دیا گیا۔کیا دستوری طور پر ایسے پروگرا م کی اجازت دی جانی چاہیے ؟کیا یہ دیش سے بغاوت نہیں ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جس پر جم کر بحث ہورہی ہے۔اس کے علا وہ مختلف تنظیموں نے بھی اظہار مذمت کیا ہے۔
پہلے اس اجلاس کا مقام منتظمین نے نہرو میدان بتایا تھا، مگر پتہ نہیں کس وجہ سے اب اسے تبدیل کرتے ہوئے کوڈیال بیل کے شاردا ودیالیہ میں منتقل کیا گیا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) ہنومنتھ رائے کے مطابق منگلورو کے عوامی مقام پر ایسے کسی بھی پروگرام کے سلسلے میں پولیس کی اجازت طلب نہیں کی گئی ہے۔اگر عام مقامات پر متنازع بینرس لگانے کے خلاف کوئی شکایت درج کرتا ہے تو پھر پولیس کارروائی کرے گی۔
منگلورو مہانگر پالیکے کی اسسٹنٹ کمشنر گائیتری نائک نے بتایا کہ میونسپل کارپوریشن کی طرف سے کسی بھی قسم کے متنازع بینرس لگانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس قسم کے بینرس کن کن مقامات پر لگائے گئے ہیں اس کے بارے میں جائزہ لیا جائے گا۔پی ایف آئی کے ریاستی جنرل سیکریٹری یاسر حسن نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے سیکیولر طرز حکومت کو ختم کرنے کی کوشش اور دہشت گردانہ سوچ ہے۔پولیس کو ایسے پروگرام منعقد کرنے اجازت دینے سے انکار کرنا چاہیے اور منتظمین کے خلاف معاملہ درج کرتے ہوئے قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
کرناٹکا پردیش کانگریس کمیٹی کے جنر ل سیکریٹری پی وی موہن نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یوم جمہوریہ کے موقع پراس طرح کے دیش کے ساتھ غداری والے پروگرام منعقد کرنے والوں کے بارے میں ریاستی حکومت کو بڑ ی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔اور اس پروگرام کو منسوخ کرنے کے لئے اقدام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ ایک تعلیمی ادارے میں اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے کی اجازت کیسے دی گئی ہے، اس کے بارے میں بھی محکمہ تعلیمات کی طرف سے تحقیقات ہونی چاہیے ۔ یہ بہت سارے مذاہب کا ملک ہے۔ کل مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب والے اسی طرح کا اقدام کرنے پر آجائیں تو پھر ملک کی حالت کیا ہوگی۔ایسے پروگرام کی وجہ سے بدامنی پیدا ہونے کی گنجائش رہنے کی وجہ سے محکمہ پولیس کو بھی محتاط ہوجانا چاہیے۔پروگرام کے منتظمین ہی نہیں بلکہ اسکول کی انتظامیہ کے خلاف بھی پولیس کو کارروائی کرنی چاہیے۔موہن نے سوال کیا کہ ’’یہ اکثریتی طبقے کا اربن نکسل واد نہیں ہے کیا ؟‘‘پھر اس پر حکومت ، ضلع انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی کے کیا معنے ہیں؟
پیوپلس یونین فار سول لبرٹیز کی نیشنل کمیٹی کے نائب صدر پی بی ڈیسا نے کہا کہ یہ ایک دستور مخالف پروگرام ہونے کی وجہ سے دیش کے ساتھ غداری کا معاملہ ہے۔ کسی بھی قیمت پر پولیس کو اسے ہلکے طورپر نہیں لینا چاہیے۔دیش کے مفاد میں سرگرم رہنے والے کنہیا کمارجیسے نوجوانوں کو جھوٹے الزامات لگاکر دیش سے غداری کا معاملہ دائر کرنے والی ہمارے ملک کی انتظامیہ کو چاہیے کہ اس طرح کھلے عام دیش سے بغاوت کا پروگرام رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔بھارت پر ہزاروں سال تک مسلم راجاؤں نے حکومت کی ہے، انہوں نے کبھی اسے مسلم ملک بنانے کی کوشش نہیں کی۔ایسی صورت میں چند لوگوں کی طرف سے اس ملک کو ہندو راشٹر ا بنانے کی کوشش کرنا انتہائی خطرناک ہے۔