کوٹلہ مبارک پورکے یتیم خانے کا مسئلہ؛اقلیتی کمیشن نے کی، ملزمین کو سزا دلانے کے لئے پولس تھانوں میں شکایت درج کرانے کی درخواست؛ خاموش رہیں گے تو اُن کے حوصلے بڑھیں گے
نئی دہلی 8/فروری (ایس او نیوز/پریس ریلیز) کچھ عرصہ قبل اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ دہلی کے کوٹلہ مبارکپور علاقے میں واقع ایک یتیم خانہ نے ایک اعلی تعلیم یافتہ مسلم لڑکی کو صرف اس لئے کام دینے سے منع کردیا تھاکہ باحجاب ہونے کی وجہ سے وہ "دور سے مسلم نظر آتی ہے"۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر ڈاکٹرظفرالاسلام خان نے مذکورہ مسلم لڑکی کا فون نمبر حاصل کرکے اس سے تفصیلات معلوم کیں اور اسے باقاعدہ شکایت درج کرنے کو کہا لیکن وہ لڑکی شکایت درج کرنے پر راضی نہیں ہوئی۔اس وجہ سے کمیشن نے اس مسئلے پر از خود (سوو موٹو) نوٹس لیتے ہوئے کوٹلہ مبارکپور پولیس اسٹیشن کو رپورٹ فائل کرنے کو کہا۔
مذکورہ پولیس اسٹیشن نے کمیشن کو اطلاع دی ہے کہ علاقے میں تحقیقات کرنے پر ایسا کوئی یتیم خانہ نہیں پایا گیا اور نہ ہی کسی نے اس بات کی پولیس میں کوئی شکایت درج کی ہے، اس لئے پولیس نے درخواست کی کہ یا تو مذکورہ یتیم خانے کا پتہ دیا جائے یا کیس کو خارج کردیا جائے۔ چونکہ کمیشن کے پاس پتہ نہیں تھا، اس لئے کیس بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہماری اخلاقی کمزوری ہے کہ ہم صحیح طریقے سے کیسوں کی پیروی نہیں کرتے ہیں اور وقت نہ ہونے یا زحمت کا بہانہ کرتے ہیں، یا کسی مصلحت کی وجہ سے خاموش رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملزمین کو نہ صرف سزا نہیں ملتی ہے بلکہ ان کو مزید شہ ملتی ہے کہ مستقبل میں بھی اسی طرح کی غیر قانونی سرگرمی جاری رکھیں۔ لوگوں کو سامنے آنا چاہئے اور اپنا وقت خرچ کرکے نہ صرف ایک خاص واقعے کے بارے میں انصاف حاصل کرنا چاہئے بلکہ ایسا کرکے آگے کا سد باب بھی کرنا چاہئے کیونکہ جب مجرمین کو لگے گا وہ بھی مصیبت میں پڑ سکتے ہیں تو وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں گے اور دوسرے لوگوں کو اس سے نصیحت ملے گی۔ یاد رہے کہ اقلیتی کمیشن یا پریس کاونسل میں کیس درج کرانے کی کوئی فیس نہیں ہے لیکن وقت ضرور دینا پڑتا ہے۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بریلی کی ستائش
پچھلے دنوں اُترپردیش کے کاس گنج فساد کے سلسلے میں بریلی کے انصاف پسند ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رگھویندر وکرم سنگھ کی فرقہ پرستوں نے اس وقت بہت بے عزتی کی جب انہوں نے فساد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ ’ایک عجیب طریقہ آج کل شروع ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے محلوں میں مظاہرے لے کر جاؤ اور پاکستان کے خلاف نعرے لگاؤ۔ کیوں؟ کیا یہ لوگ پاکستانی ہیں؟ یہی بات بریلی کے کھیلام گاؤں میں ہوئی تھی، پھر پتھرپھینکے گئے تھے اور ایف آئی آر درج کی گئی تھی‘‘۔
رگھویندر سنگھ کے موقف کی ستائش کرتے ہوئے صدر دہلی اقلیتی کمیشن ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ان کو خط لکھ کر مبارکباد دی ہے ۔ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اپنے خط میں لکھا ہے: ’’آپ صحیح معنی میں ہمارے ملک اور ہماری سوسائٹی کے سیکولر اور انسان دوست اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو لوگ آپ کے خلاف بول رہے ہیں وہ ہماری مین سٹریم اور قومی روح کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے آپ کے موقف اور درست اصول کی ستائش کی ہے۔ اگر آپ جیسے لوگ ذمہ دار عہدوں پر ہوں گے تو ہمیں وہ امن وسلامتی میسر ہوگی جس کے بغیر ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ براہ کرم ہماری ستائش کو قبول کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ انصاف اور حق کی جدوجہد میں آپ اکیلے کھڑے ہیں۔ اس ملک میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو آپ کی تائید کرتے ہیں اور جب بھی مشکل حالات اور چیلنج ان کے سامنے آتے ہیں تو ان کا رویہ بھی آپ ہی جیسا ہوتا ہے‘‘۔
(ختم)