ہم آہنگی کے فروغ میں رواداری کو مرکزی اہمیت حاصل، نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی کے 25 ویں کانوکیشن سےحامدانصاری کاخطاب
بنگلورو،6؍اگست(ایس او نیوز) نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری نے آج کہا کہ مختلف طبقات کے مابین ہم آہنگی کے فروغ دینے کیلئے رواداری کو قوم کا لازمی جزو بنایا جانا چاہئے۔ انہوں نے نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی کے 25 ویں کانوکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے سماج میں جہاں مختلف مذاہب اور سیاسی نظریات کی حامل لوگ رہتے ہوں، ان میں باہمی اختلاف کو دور کرنے کا واحد فارمولہ رواداری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ صرف رواداری ہی کثرت میں وحدت اور اجتماعی سماج کی بنیاد نہیں ہوسکتی ، اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے کا مادہ ہونا ضروری ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے سوامی وویکانند کا یہ قول دہرایا کہ ’’ہمیں نہ صرف دیگر مذاہب کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا بلکہ ان کی خوبیوں کو تسلیم بھی کرنا ہوگا کیونکہ سچائی ہی تمام مذاہب کی بنیاد ہے‘‘۔ نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ آج سب سے بڑا چیلنج سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کو ازسرنو مستحکم بنانا ہے جن میں مذہبی آزادی اور رواداری بھی شامل ہے۔ یہ چیلنج ہمیں اس بات پر زور دیتا ہے کہ مساوات اہمیت کے حامل ہیں۔ مذہبی آزادی کو اجتماعی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے ہندوستانی سماج میں رواداری اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کی صلاحیت کا تذکرہ کیا۔ حامد انصاری نے کہا کہ قومیت پسندی دراصل ہماری تہذیبی و ثقافتی عہد کی پابندی ہے۔ اگر قدامت پسندی اور تنگ نظری کی حامل قومیت پسندی کو اختیار کیا جائے تو عدم رواداری اور سخت گیر حب الوطنی کو بڑھاوا ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں اس متضاد نظریہ نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا ہے اور یہ سیاسی اور تہذیبی سماج میں سرایت کرگیا ہے۔ اس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ کسی بھی مخالف کو خواہ وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہو، ختم کردینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح قومی وقار کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت سے زیادہ قومیت پسندی اور اپنا ذہن ماؤف کرلینا یہ ایسی خصوصیات ہے جن سے دنیا میں کسی ایک مقام پر عدم سلامتی بڑھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک کیلئے بیرونی اور داخلی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانا بنیادی ذمہ داری ہے۔ حامد انصاری نے کہا کہ جمہوریت کو صرف اس کے اداروں کے ذریعہ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اس کی موجودگی کے ذریعہ جانچا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام کے مختلف طبقات سے اٹھنے والی مختلف آوازوں کو کس طرح سنا جارہا ہے۔ سب کی آواز کو تسلیم کیا جارہا ہے یا نہیں۔