جسٹس کورین کے انکشاف پر کانگریس نے مانگی مودی سے وضاحت
نئی دہلی 4/ڈسمبر (ایس او نیوز/ایجنسی) سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس کورین جوسف نے سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کے تعلق سے جو بیان دیا ہے، اُس پر کانگریس نے وزیراعظم نریندر مودی سے وضاحت طلب کی ہے اور کہا ہے کہ جسٹس کورین جوسف نے سپریم کورٹ کے کام کاج کے سلسلے میں جو انکشاف کیا ہے وہ جمہوریت کے لئے انتہائی سنگین ہے ۔
جسٹس کورین جوسف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کئی ایک معاملات میں باہری مداخلت محسوس کی گئی ہے اور کئی اہم معاملات کے سلسلے میں عدالت پر دباو ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اور اسی کا نتیجہ میں عدالت عظمی کے چار ججوں کو میڈیا کے سامنے آنا پڑا تھا۔
کانگریس ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ جسٹس جوسف کے اس انکشاف سے واضح ہوگیا ہے کہ مودی حکومت اعلی ترین عدالتی ادارہ کو ریموٹ کے ذریعہ کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سنٹرل ویجی لنس کمیشن جیسے اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق کام لینے کے لئے مجبور کررہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ عدالت عظمی میں باہری مداخلت کا معاملہ بے حد سنگین ہے۔ یہ جمہوریت کے لئے ہلاکت خیز ہے ۔ یہ ابتدا کس نے کی اور کب کی ہے۔ کن معاملات میں باہری مداخلت ہوئی ہے اس کی وسیع اور غیر جانبدارانہ جانچ ہونی چاہئے اور پارٹی اس کے لئے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی اور عدالتی انکوائر ی کا مطالبہ کرتی ہے۔
سنگھوی نے کہا کہ عدالت عظمی کے کام کاج میں مداخلت کرنے کے طریقوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ کن معاملات میں حکومت کی جانب سے دخل اندازی کی کوشش کی گئی ۔ اس کی غیر جانبدارانہ چھان بین ضروری ہے۔ مودی کو اس معاملے میں خود سامنے آنا چاہئے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سابق جسٹس کے بیان پر فوراَ وضاحت پیش کرکے اس کی جانچ کرانی چاہئے۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ مودی حکومت کے کام کاج کے بارے میں اہم عہدوں پر تعینات لوگ سوال اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی حکومت کے سابق اقتصادی مشیراروند سبرامنیم نے نوٹ بندی کو حکومت کی سب سے بڑی ناکامی بتایا اور اب دو دن پہلے ریٹائر ہوئے چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نوٹ بندی کے خلاف بیان دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مود ی حکومت میں خود مختار اداروں کے کام کاج میں دخل اندازی کی فہرست کافی طویل ہے ۔ ہر ادارہ میں مداخلت کی کوشش کی گئی ہے لیکن ملک میں اعلی ترین عدالتی ادارہ میں دخل اندازی خطرناک ہے اور اس کے بارے میں ملک کے سامنے پوری صورت حال واضح کی جانی چاہئے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے اس معاملے میں غیر جانبدارانہ انکوائری کی امید کی جاسکتی ہے اس لئے اس کی تشکیل کی جانی چاہئے۔