مظلوموں کی لاشیں،ظالموں کا جشن ...... .... از: مولانا اسرار الحق قاسمی

Source: S.O. News Service | By I.G. Bhatkali | Published on 23rd May 2018, 5:22 PM | اسپیشل رپورٹس |

دنیا بھر کی عوامی مخالفت کے باوجودامریکہ کے عجوبہ روزگار اور غیر متوازن صدرڈونالڈ ٹرمپ کاامریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے یروشلم یعنی مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کے فیصلے پر ضد اور سرکشی سے قائم رہنا،سرزمین عرب پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کی سترویں سالگرہ کے موقع پر اس منتقلی کے جشن کے دوران احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینی مظاہرین پر اسرائیل کے ذریعہ توپ خانے اور ڈرون طیاروں سے اندھادھند فائرنگ اورگولہ باری کرکے عورتوں اور بچوں سمیت60 بے گناہوں کوشہید اور تین ہزارسے زائد انسانوں کو زخمی کردیا جانا، اور ستم بالائے ستم یہ کہ اسرائیل کی اس جارحیت کو امریکہ ، برطانیہ، فرانس اور بعض دیگر ملکوں کے ذریعہ ہمیشہ کی طرح یہ کہ کر درست ٹھہرانا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا حق ہے ؛ایک بار پھریہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا سے انصاف بہت حد تک رخصت ہو تا جا رہا ہے اوربے انتہاطاقت کے نشے میں کچھ بدمست ممالک اورعالمی رہنماؤں کا مظلوموں کے بجائے ظالموں کے ساتھ کھڑے ہونا، انکی حمایت کرنااور انہیں شہ دینا قطعی غیر اخلاقی اور باعث شرم نہیں رہ گیا ہے۔ بہت سے ملکوں نے فلسطینیوں کے لئے محض زبانی ہمدردی ظاہر کی اور اسرائیل کے اقدام کی مذمت کی، لیکن صرف ترکی اور جنوبی افریقہ نے اسرائیل سے اپنے سفیر واپس طلب کرلئے ،اور ترکی نے تو فلسطینیوں کی بہیمانہ ہلاکت کے اس المناک واقعہ کے لئے بجا طور پر امریکہ کو برابر کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے واشنگٹن سے بھی اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ 

امریکہ میں اسرائیل کی طاقتور لابی اور امریکی حکومت پر اسکی بے پناہ گرفت اور اثرات سے سب واقف ہیں۔ وھائٹ ہاؤس بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ اور جب سے ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے ہیں، وہ بھی ایسے صدر جو عاجلانہ ، منمانے اور بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے،وھائٹ ہاؤس پراسرائیلی لابی کی گرفت کچھ زیادہ ہی مضبوط ہو گئی ہے۔ اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہیکہ ٹرمپ کی دختر ایوانکا ٹرمپ کے شوہر جارید کوشنر یہودی ہیں۔دوسری طرف ٹرمپ بھی اپنی بیٹی پر بیحد بھروسہ کرتے ہیں۔ٹرمپ کی بیٹی اور دامادکوجو وہائٹ ہاؤس اور امریکی انتظامیہ کے اہم جز ہیں،یہودی لابی نے اپنے اثر و رسوخ کے ذریعہ استعمال کیا اور انہوں نے ٹرمپ کے فیصلہ میں اہم کردار نبھایا۔ 

امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو مزید دھماکہ خیز بنا دیا ہے۔ اس سے اسرائیل اور فلسطین کے بیچ جاری مستقل نوعیت کی نفرت، عداوت اور جنگ میں نہ صرف مزیدکئی گنا اضافہ ہوگا بلکہ عالم اسلام میں امریکہ کے تئیں نفرت بھی بے تحاشہ بڑھے گی جو پہلے بھی کم نہیں تھی۔طاقتور ہونے کے باوجودآج امریکہ کے لوگ دنیا کے بہت سے خطوں میں آزادی سے نہیں گھوم سکتے ۔امریکہ کوگاہے بگاہے اپنے شہریوں کے لئے سیکورٹی ایڈوائزری جاری کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے ملکوں میں تو اسکے سفارتکاروں کو سیکورٹی کے زبردست تام جھام کے باوجودبھی بنکروں میں اپنی زندگی گزارناپڑتی ہے۔ اس سے قبل ٹرمپ نے صدر بنتے ہی چھہ مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی جس سے انکی مسلم مخالف ذہنیت اجاگر ہوگئی تھی۔ ابھی انہوں نے ایران جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کرلیا۔ اس قدم سے انہوں نے بحیثیت ایک ملک امریکہ کی معتبریت کوبھی زبردست نقصان سے دوچار کرلیا ہے۔ اور اب امریکی مشن کو یروشلم منتقل کرکے انہوں نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ دنیا کو امن و سکون کی جگہ بنانے کے بجائے اسے جنگ و جدال میں دھکیل کر تباہ و برباد کر دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

اُدھر امریکہ کی روایتی پشت پناہی کی بدولت یروشلم میں امریکی سفارتخانہ قائم ہونے سے اسرائیل کو بھی سر دست ایک اضافی پوائنٹ کا فائدہ ملتا ہوا ضرور نظر آرہا ہے ، لیکن صرف امریکی مشن کی منتقلی سے یروشلم کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔بلکہ اس اقدام سے خطہ میں امن کی امیدیں اور بھی موہوم ہو گئی ہیں۔ اسرائیل کا قیام ہی اگرچہ غیر منصفانہ، جبراً اور دغابازی سے عبارت ہے، لیکن اس صہیونی مملکت کو بھی اپنے لوگوں کو امن و سکون کی زندگی فراہم کرنا ہے تو اسے علاقائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعہ ہی حل کرنا ہوگا۔اسرائیل کوامریکہ کی حمایت دائمی نہیں ہو سکتی۔ دنیائے عرب سے محاذ آرائی کرکے وہ خود کو بھی خطرے میں دھکیلتا جا رہا ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے بے تحاشہ استعمال سے نفرت اور عداوت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وہ اپنی غاصبانہ روش اور ظلم کے سلسلے کو نہیں روکتا اور’ایک تو چوری،اوپر سے سینہ زوری‘ کے مصداق ظلم و زیادتی کو ہی اپنا شیوہ بنائے بنائے رکھتا ہے تو وہ اس خطہ میں کبھی آباد نہیں رہ سکتا، اسکا وجود ہمیشہ متزلزل رہے گا اور اسکے شہریوں کو کبھی امن و سکون کی زندگی میسرنہیں ہو سکے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق مسلسل قتل و خونریزی اور خودکش حملے کا ہمہ وقت خطرہ اسرائیلی شہریوں کی دماغی صحت پر تباہ کن اثر مرتب کررہا ہے۔ان کے سامنے بموں کے زوردار دھماکے ہوئے ہیں، انہوں نے ہنستے کھیلتے لوگوں کو پل بھر میں خاک و خون میں لت پت ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔دھماکوں نے چلتے پھرتے انسانوں، نوجوانوں کو معذور بنا دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اسرائیلی فورسز کس طرح فلسطینیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یا سُن کروہ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ انہیں بجا طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انکی زندگی بھی کسی بھی لمحہ ختم ہو سکتی ہے، سڑکوں پر، پارکوں میں، ریستورانوں میں، سفر کے دوران ایک خودکش دھماکہ انہیں ہمیشہ کے لئے ختم کرسکتا ہے یا معذور بنا سکتا ہے۔ 

اس احساس کی وجہ سے ،جو وقت کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے، اسرائیلی نوجوان شادیاں نہیں کررہے ہیں، اگر شادی کرلیتے ہیں تو غیر یقینی مستقبل کے بارے میں سوچ کربچے پیدا کرنے سے گریز کرتے ہیں ، جو کچھ کماتے ہیں فوراً خرچ کردیتے ہیں کہ جب زندگی کا ہی ٹھکانہ نہیں ہے تو کچھ پس انداز کرنے کا کیا فائدہ ہوگا۔ایک اسرائیلی نفسیاتی معالج کا کہنا ہیکہ اس صورتحال میں اسرائیلی نوجوانوں کا ایک طبقہ اپنے سکون کے لئے یہ جارحانہ سوچ رکھتا ہے کہ تمام فلسطینیوں کو بیک وقت قتل کردیا جائے تو دوسرااعتدال پسندطبقہ یہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف اپنے مظالم بند کردینا چاہئیں تاکہ انکی زندگی میں بھی امن و سکون کی آمد ہو سکے۔ اس طرح حالات نے اسرائیلی عوام کو بھی دو حصوں میں منقسم کردیا ہے۔ 

ایسا نہیں ہے کہ عالم اسلام بالکل بے بس ہے اور اسرائیل کو سبق سکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہیکہ بیشتر ممالک، جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرسکتے ہیں، مصلحت کوشی کی وجہ سے خاموش ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو اسرائیل کے ساتھ کھڑے بھی نظر آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام اورمعدودے چند انصاف پسند مسلم ممالک جارح اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔لیکن اگر اسرائیلیوں کی نسلیں ذہنی مریض بنتی جا رہی ہیں تویہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ظالموں پر قدرت کی گرفت شروع ہو چکی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اس سے کب سبق حاصل کرتاہے۔ 

(مضمون  نگار ممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں)

ایک نظر اس پر بھی

یہ الیکشن ہے یا مذاق ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آز: ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ایک طرف بی جے پی، این ڈی اے۔۔ جی نہیں وزیر اعظم نریندرمودی "اب کی بار چار سو پار"  کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف حزب اختلاف کے مضبوط امیدواروں کا پرچہ نامزدگی رد کرنے کی  خبریں آرہی ہیں ۔ کھجوراؤ میں انڈیا اتحاد کے امیدوار کا پرچہ نامزدگی خارج کیا گیا ۔ اس نے برسراقتدار ...

بھٹکل سنڈے مارکیٹ: بیوپاریوں کا سڑک پر قبضہ - ٹریفک کے لئے بڑا مسئلہ 

شہر بڑا ہو یا چھوٹا قصبہ ہفتہ واری مارکیٹ عوام کی ایک اہم ضرورت ہوتی ہے، جہاں آس پاس کے گاوں، قریوں سے آنے والے کسانوں کو مناسب داموں پر روزمرہ ضرورت کی چیزیں اور خاص کرکے ترکاری ، پھل فروٹ جیسی زرعی پیدوار فروخت کرنے اور عوام کو سستے داموں پر اسے خریدنے کا ایک اچھا موقع ملتا ہے ...

نئی زندگی چاہتا ہے بھٹکل کا صدیوں پرانا 'جمبور مٹھ تالاب'

بھٹکل کے اسار کیری، سونارکیری، بندر روڈ، ڈارنٹا سمیت کئی دیگر علاقوں کے لئے قدیم زمانے سے پینے اور استعمال کے صاف ستھرے پانی کا ایک اہم ذریعہ رہنے والے 'جمبور مٹھ تالاب' میں کچرے اور مٹی کے ڈھیر کی وجہ سے پانی کی مقدار بالکل کم ہوتی جا رہی ہے اور افسران کی بے توجہی کی وجہ سے پانی ...

بڑھتی نفرت کم ہوتی جمہوریت  ........ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے ۔ انتخابی کمیشن الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل تیاریوں میں مصروف ہے ۔ ملک میں کتنے ووٹرز ہیں، پچھلی بار سے اس بار کتنے نئے ووٹرز شامل ہوئے، نوجوان ووٹرز کی تعداد کتنی ہے، ایسے تمام اعداد و شمار آرہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ...

مالی فراڈ کا نیا گھوٹالہ : "پِگ بُوچرنگ" - گزشتہ ایک سال میں 66 فیصد ہندوستانی ہوئے فریب کاری کا شکار۔۔۔۔۔۔۔(ایک تحقیقاتی رپورٹ)

ایکسپوژر مینجمنٹ کمپنی 'ٹینیبل' نے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلے سال تقریباً دو تہائی (66 فیصد) ہندوستانی افراد آن لائن ڈیٹنگ یا رومانس اسکینڈل کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے 81 فیصد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مسلمان ہونا اب اس ملک میں گناہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔از: ظفر آغا

انہدام اب ایک ’فیشن‘ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا بیان ہے۔ بے شک مکان ہو یا دوکان ہو، ان کو بلڈوزر کے ذریعہ ڈھا دینا اب بی جے پی حکومت کے لیے ایک فیشن بن چکا ہے۔ لیکن عموماً اس فیشن کا نشانہ مسلم اقلیتی طبقہ ہی بنتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ...