امریکہ: 17 برس بعد وفاقی سطح پر مجرم کو سزائے موت دی جائے گی
واشنگٹن،13/جولائی(آئی این ایس انڈیا)امریکہ میں قتل کے الزام میں سزا یافتہ مجرم ڈینئل لیون لی کو پیر کو سزائے موت دی جائے گی جو امریکہ میں وفاقی سطح پر 17 برس بعد کسی بھی مجرم کو دی جانے والی موت کی سزا ہو گی۔
امریکہ کی ایک وفاقی اپیلیٹ کورٹ نے اتوار کو مجرم ڈینئل لی کی موت کی سزا روکنے کے ذیلی عدالت کے حکم کو معطل کرتے ہوئے مجرم کی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
سنتالیس سالہ ڈینئل لی کے اہلِ خانہ نے ذیلی عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ وہ کرونا وائرس کی وجہ سے ڈینئل کی سزائے موت پر عمل درآمد کے وقت موجودگی کو یقینی نہیں بنا سکتے اس لیے سزا کو ملتوی کیا جائے۔
عدالت نے جمعے کو درخواست منظور کرتے ہوئے ڈینئل کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ تاہم محکمہ انصاف نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو ایپلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا اور استدعا کی کہ مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے۔
اتوار کو فیڈرل اپیلیٹ کورٹ نے قرار دیا کہ مجرم کے لواحقین کے پاس سزائے موت پر عمل درآمد میں تاخیر کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد ڈینئل لی کو ریاست انڈیانا کی ایک جیل میں پیر کو لیتھل انجکشن لگا کر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ ڈینئل نے 1996 میں اسلحے کے تاجر ولیم ملر، اُن کی اہلیہ اور آٹھ سالہ بیٹی کو قتل کیا تھا۔
ڈینئل کے اہلِ خانہ نے محکمہ انصاف اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ ڈینئل کی سزائے موت پر عمل درآمد کے بجائے اسے عمر قید میں بدل دیا جائے۔
دوسری جانب اٹارنی جنرل ولیم بار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ بیورو آف پریزنس نے کرونا وائرس کے دنوں میں سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔
ان کے بقول سزائے موت کے وقت موجود مجرم کے اہلِ خانہ کا درجہ حرارت چیک کیا جائے گا اور انہیں ماسک پہننا بھی لازم ہو گا۔
ادھر ناقدین کا کہنا ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد کی بحالی خطرناک اور سیاسی مقاصد کے لیے ہے۔ حکومت غیر ضروری طور پر اس معاملے کو ہوا دے رہی ہے جس کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی مختلف جیلوں میں قید سات ہزار سے زیادہ قیدیوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جن میں سے 5137 صحت یاب ہو چکے ہیں جب کہ مارچ سے اب تک لگ بھگ 100 قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔