قبائلی عوام ملک کی زمین کے پہلے مالک ہیں: راہل گاندھی
سیونی ، 9/اپریل (ایس او نیوز /ایجنسی) کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نےپیر کو مدھیہ پردیش میں قبائلیوں کے درمیان اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس کی حکومت بنتی ہے تو قبائلیوں کو دہلی یا بھوپال سے نہیں چلایا جائے گا۔ مقامی سطح پر قبائلی حکومت چلائی جائے گی۔ گاندھی ضلع سیونی کے دھنورا اور شہڈول میں پارٹی امیدواروں کی حمایت میں انتخابی ریلیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس قبائلیوں کو قبائلی کہتی ہے اور بی جےپی انہیں ون واسی کہتی ہے۔ قبائلی عوام اس ملک کی زمین کے پہلے مالک ہیں۔ ملک کے جنگلات اور دولت پر ان کا حق ہے۔ ونواسی کا مطلب ہے جنگل میں رہنے والے۔ اس کے پیچھے ایک نظریہ ہے۔ جنگل میں رہنے والوں کے پیچھے کیا پوشیدہ ہے کہ انہیں پانی، جنگل اور زمین پر کوئی حق نہیں ملنا چاہیے۔ قبائل کا مطلب ہے کہ آپ ملک کے پہلے مالک ہیں، جن کا ملک کی دولت پر حق ہے۔
کانگریس کے سابق صدر نے کہا کہ۲۰۰؍بڑی کمپنیاں ہیں جن میں کوئی قبائلی مالک نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اور کانگریس کی حکومتوں نے زمین کے حقوق دئیے اور کئی بل لائے۔ جب بھی بی جے پی کو موقع ملتا ہے، وہ قبائلیوں کی زمین چھین کر اسے `اڈانی جیسے ارب پتیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔قبائلی نوجوان پوچھتے ہیں کہ اگر زمین لی جائے اور روزگار اور معاوضہ نہ دیا جائے تو بی جے پی والے انہیں جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
راہل گاندھی نے سدھی میں قبائلی پر پیشاب کرنے کے واقعہ کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ منشور میں بہت سے انقلابی کام ہیں جن سے زندگیاں بدل جائیں گی۔ ہم ہر غریب خاندان سے ایک خاتون کا انتخاب کریں گے اور ہر سال اس کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے جمع کریں گے۔ حکومت میں ۳۰؍ لاکھ اسامیاں ہیں، جو کنٹریکٹ پر دی گئی ہیں۔ حکومت بنتے ہی یہ بھر ےجائیں گے۔ ہر غریب نوجوان کو ایک سال کی اپرنٹس شپ اور ایک لاکھ روپے سالانہ دئیے جائیں گے۔ منریگا جیسے حقوق ملیں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مودی نے منریگا کو روکنے کی کوشش کی ہے۔
راہل گاندھی نے مدھیہ پردیش کے سدھی میں ایک قبائلی پر بی جےپی کارکن کے ذریعےپیشاب کئے جانے کے واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ بی جے پی لیڈر قبائلیوں کو بے عزت کرنے کا کام کرتے ہیں ۔ ہندوستان کو جو۹۰؍ افسر چلاتے ہیں، ان۹۰؍ افسروں میں سے ایک افسر قبائلی ہے۔ملک میں قبائلی ۸؍ فیصد ہیں، لیکن نظام چلانے میں آپ کی حصہ داری نہیں ہے۔ اگر بجٹ میں۱۰۰؍ روپیہ خرچ ہوتا ہے تو قبائلی افسر۱۰؍ پیسے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہماری لڑائی یہی ہے اور آپ کیلئے ہے۔‘‘
کانگریس کا انتخابی منشور جاری ہونے کے بعد سے ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جہاں ایک جانب عوام کی جانب سے اس کی بھرپور پذیرائی ہو رہی ہے، تو وہیں بی جے پی اس پر تنقید بھی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم مودی کے ذریعے اسے مسلم لیگ کا منشور قرار دئیے جانے کے پر کانگریس کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہ اور پارٹی ترجمان سپریا شرینیت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔سپریہ شرینیت نے کہا کہ۱۰؍ سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد جب ملک انتخابات کے دہانے پر ہے اور وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ کارڈ دکھا کر لوگوں سے ووٹ مانگنا چاہئے تو وہ گھبرا گئے ہیں۔ وہ پھر سے اپنی وہی گھسی پٹی ’ہندو-مسلمان‘ کی اسکرپٹ پر اتر آئے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’وزیر اعظم اتنے گھبرائے اور اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ اپنی ممکنہ شکست کی وجہ سے وہ پھر بکواس کر رہے ہیں۔ کانگریس کے منشور ’نیائے پتر‘ پر ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ میڈیا، ماہرین اور یہاں تک کہ ہمارے مخالفین کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ ’نیائے پتر‘ مستقبل کی تعمیر و ترقی کا ایک بہترین خاکہ ہے، جس میں سماج کے ہر طبقے کو شامل کیا گیا ہے۔‘‘