لنکاحکومت کی انتہاپسندی عروج پر، سری لنکا میں برقع پر پابندی اور1000دینی مدارس بند کرنے کا فیصلہ
کولمبو،14؍مارچ(ایس او نیوز؍ایجنسی)سری لنکا میں ایک بارپھر برقع اور اسلامی اسکول نشانے پر ہیں -سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سکیورٹی کا کہنا ہے کہ حکومت برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کے علاوہ ایک ہزار سے زائد دینی مدارس بھی بند کر ے گی-
ہفتے کو صحافیوں سے گفتگو میں پبلک سکیورٹی کی وزیر سارتھ ویراس کیرا کا کہنا تھا کہ انہوں نے سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر مسلم خواتین کے مکمل چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق بل پر جمعہ کو دستخط کیے ہیں - اس بل کی منظوری کابینہ سے لی جائے گی-
خبر رساں ادارے”رائٹرز“ کے مطابق ویراس کیرا کا کہنا تھا کہ اس خطے میں ابتدا میں مسلمان خواتین اور لڑکیوں نے کبھی برقع نہیں پہنا تھا - انہوں نے مزید کہا کہ برقع پہننا انتہا پسندی کی نشانی ہے- ان کے بقول وہ اس پر ضرور پابندی لگائیں گے-بودھ مت اکثریت والے ملک سری لنکا میں برقع پہننے پر عارضی پابندی 2019 میں گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر ہونے والے دھماکوں کے بعد لگائی گئی تھی جس کی ذمہ داری عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی - خیال رہے کہ ان دھماکوں میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے-
ویراس کیرا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت 1000 سے زائد دینی مدارس کو بند کرے گی جو ان کے بقول قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نہیں ہیں -ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کوئی تعلیمی ادارہ نہیں کھول سکتا اور جو چاہے وہ بچوں کو نہیں سکھا سکتا-سری لنکا کے شمالی علاقوں میں دہائیوں پرانی شورش کو ختم کرنے سے شہرت پانے والے گوٹا بائی راجہ پاکسا انتہاپسندی کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے کی وجہ سے ہی 2019 میں انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے-راجہ پاکسا پر جنگ کے دوران انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں جن کی انہوں نے ہمیشہ تردید کی ہے-
برقع پر پابندی اور دینی مدارس بند کئے جانے سے قبل حکومت کی طرف سے کورونا وبا سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی لاشوں کو مسلمانوں کی مرضی کے برخلاف جلانے کا حکم دیا گیا تھا جو اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں -تاہم یہ پابندی امریکہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپس کی تنقید کے بعد اٹھا لی گئی تھی-