بنگلورو 26 فروری ( ایس او نیوز ) شیموگہ میں 20 اپریل کو بجرنگ دل کارکن ہرشا نامی 27 سالہ شخص کاقتل ہو گیا تھا۔ پولیس اسے ایک مقامی دیرینہ فرقہ وارانہ رقابت والا معاملہ قرار دیا ہے ۔ حالانکہ ابھی اس بات کی چھان بین جاری ہے کہ مسلح افراد کی ایک ٹولی نے یہ قتل کس طرح کیا۔ اب تک اس سلسلے میں 10 افرادکوگرفتار کیا گیا ہے اور تمام کو 7 مارچ تک کے لئے پولیس تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
کہا جا تا ہے کہ مقتول ماضی میں سوشیل میڈیا پر اسلام کے متعلق تو ہین آمیز پیغامات کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا دشمن بنا چکا تھا۔ لیکن حجاب کے معاملے کو لے کر جو گڑ بڑ چل رہی ہے، ایسے موقع پر یہ واردات ہوئی ہے۔
یعنی قتل کی فوری وجہ حجاب معاملہ نہیں بلکہ دشمنی کا یہ سلسلہ پرانا ہے ۔ ایک اعلی پولیس افسر نے یہ بتاتے ہوئے کہا کہ مزید چھان بین جاری ہے ۔ ہرشا ناگراج عرف ہرشا ہندوکو 20 فروری کی رات شیموگہ کے دوڈ پیٹ پولیس تھانے کی حدود میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ ایک ہوٹل میں رات کا کھانہ کھانے کے بعد چند دوستوں کے ساتھ نکلا تھا کہ ایک کار اور آٹو رکشا میں منتظر افراد نے اس کا قتل کر دیا۔
اس کی اگلی ہی صبح شیموگہ میں تشدد کی آگ بھڑک اٹھی ۔ اب تک کی تحقیق سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ کہ اہم ملزم کاشف (30) کو واردات کے چند گھنٹوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کی شناخت جائے واردات پر موجود گواہوں نے کی تھی۔اس نے اس قتل کے لئے دیگر لوگوں کو اکٹھا کیا تھا۔ پولیس افسر نے کہا ” ہمیں نہیں معلوم کہ کس بات نے حقیقی طور پر قاتلوں کو اس عمل پر اکسایا۔
چھان بین سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ رقابت عرصے سے چل رہی تھی کیونکہ ہرشا ایسی ہی، بجرنگ دل کارروائیوں میں مصروف تھا۔ حجاب کامعاملہ تو اب اٹھا ہے۔ علاقے میں اس سے پہلے بھی ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کئی جھٹر یں ہو چکی ہیں ۔ 6 ماہ قبل ہرشا اور ایک ملزم کے درمیان کسی معاملے کو لے کر ایک عدالت کے احاطے میں جھگڑا بھی ہوا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ قتل اسی کا نتیجہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مقامی رقابت کا نتیجہ ہے ۔‘‘ کاشف اور دیگر تین ملز مین 2016 ء سے شیموگہ میں جرائم کے 16 معاملات میں ملوث ہیں ۔ 2017 ء کے دوران جب کاشف عصمت دری کے معاملے میں جیل میں تھا (جس کے بعد اسے بری کر دیا گیا تھا) ، ہر شا بھی اسی جیل میں بند تھا۔ اس پر دوڈ پیٹ کے ایک مسلمان پر حملے کا الزام تھا۔