حیدرآباد، 11/اکتوبر (ایس او نیوز /ایجنسی) پاکستان نے آج وہ کر دکھایا جس کی عموماً اس کے مداحوں کو اس کے بلے بازوں سے بالکل امید نہیں ہوتی، یعنی ایک ایسے ہدف کا تعاقب جو آغاز میں خصوصاً بابر اعظم کی وکٹ گرنے کے بعد ناقابلِ تسخیر دکھائی دے رہا تھا۔
ایسے میں عبداللہ شفیق اور رضوان کریز پر اکھٹے ہوئے اور پاکستان نے 345 رنز کے ہدف کے تعاقب کا آغاز کیا۔
اس تمام صورتحال میں مسئلہ یہ بھی تھا کہ پاکستان نے آج تک ورلڈ کپ مقابلوں میں کبھی 265 رنز سے زیادہ کے ہدف کا تعاقب نہیں کیا تھا۔
آغاز میں دونوں کی رنز بنانے کی رفتار قدرے سست تھی لیکن پھر وقت کے ساتھ اعتماد بڑھنے اور سری لنکن بولرز کی ناقص بولنگ نے میچ کا پانسہ پاکستان کی جانب پلٹ دیا۔
عبداللہ شفیق جو فخر زمان کی مسلسل ناقص فارم کے باعث ٹیم میں شامل کیے گئے تھے نے سپنرز کو انتہائی اطمینان سے کھیلا اور پاکستان کی اننگز کو ٹھہراؤ بخشا۔
ان کا سٹائلش انداز ان کے جارحانہ کھیل میں نظر آ رہا تھا اور انھوں نے سپنرز اور فاسٹ بولرز دونوں ہی کے خلاف انتہائی اطمینان اور جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی اور پاکستان کو اس ہدف کے تعاقب میں ایک بہترین بنیاد فراہم کر دی۔
انھوں نے 112 رنز کی اننگز میں تین چھکے اور 11 چوکے لگائے اور جب وہ آؤٹ ہوئے تو پاکستان ایک مستحکم پوزیشن پر تھا۔
ان کا ساتھ دینے والے محمد رضوان نے دوسری جانب سے ایک لمبی اننگز کھیلی اور آخری اوور تک کریز پر موجود رہے۔ انھوں نے آٹھ چوکے اور تین چھکے لگائے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں دوسرا میچ بھی جیت جائے۔
یہ ورلڈ کپ مقابلوں کی تاریخ کا سب سے بڑا کامیاب تعاقب ہے۔
سعود شکیل کے 31 اور افتخار کے 22 رنز بھی اہم رہے اور پاکستان نے صرف 10 گیندیں پہلے ہی ہدف کا تعاقب مکمل کر لیا۔
محمد رضوان کی 131 رنز کی ناقابلِ تسخیر اننگز کے باعث انھیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔