ممبئی، میرا روڈ تشدد:41دن بعد بھی ضمانت نہیں ملی، دفاعی وکلاء5مارچ کوشواہد پیش کریں گے
ممبئی، 3/مارچ (ایس او نیوز/ایجنسی) یہاں رونما ہونے والے تشدد کو41 دن گزرچکے ہیں۔پولیس کی یکطرفہ کارروائی میں گرفتار کئےگئے 21ملزمین اب بھی قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں ۔دفاعی وکلاء کی جانب سے 3طلبہ سمیت9ملزمین کی ضمانت کی عرضیاں داخل کی گئی ہیں اورمتعدد مرتبہ بحث بھی ہوچکی ہے مگر سرکاری وکیل کی جانب سے شدیدمخالفت کے سبب اب تک کسی کوضمانت نہیںملی ہے۔
اب سرکاری وکیل کے طورپراسپیشل پبلک پروسیکیوٹر مہاترے کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مضحکہ خیزبات یہ ہے کہ انہوںنے دیگر الزامات کے ساتھ اب یہاں پاپولر فرنٹ اوراسکے سلیپرسیل کی موجودگی اورمنصوبہ بندی کا بھی حوالہ دیا ہے اوریہ کہا ہےکہ اگرملزمین کوضمانت دی جاتی ہے تو سازش رچنے والے کی گرفتاری میںرخنہ پڑسکتا ہے اوراس کا کیس پر بھی اثر پڑے گا۔
یہی وہ مہاترے ہیں جنہوں نے رام نومی کے موقع پر مالونی میںہونے والے منصوبہ بند تشدد میں بھی مسجد علی میں اسی طرح کی منصوبہ بندی اورپی ایف آئی اوراس کے سلیپرسیل کا حوالہ دیا تھامگران کے ان الزامات کی ہوا اس وقت نکل گئی تھی جب جمیل مرچنٹ نے مسجد اوراسکےاطراف کے وہ تمام سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میںمہیا کرادیئے تھے ۔
ایک اہم بات یہ ہے اوراس کا ویڈیو بھی دفاعی وکلاء کی جانب سے عدالت میںپہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے جس میںتشدد کے محض ۳؍ گھنٹے کے بعد ڈپٹی پولیس کمشنر کی جانب سے یہ بیان دیا گیاتھا کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ اورذات ومذہب کی بنیاد پر رونما ہونےوالا تشدد نہیںہے بلکہ یہ چھوٹا موٹا جھگڑا ہے ۔ساتھ ہی پولیس کی جانب سے بھی جو ویڈیوز پیش کئے گئے ہیں اس میںبھی ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح دفاعی وکلاء کی جانب سے ملزمین پر 307 لگانے کویہ کہہ کرچیلنج کیا گیا ہے اور 5 مارچ کو وہ اس کاثبوت بھی پیش کرینگےکہ307لگانے کاکوئی جواز ہی نہیںہے اور اس تعلق سے سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کوبھی نظر اندازکیا گیا ہے ۔
دفاعی وکلاء کی جانب سے 26 فروری کو ہی عدالت میںشواہد پیش کئے جانے تھے مگر جج نہیں تھے تو تاریخ بڑھاکر 5مارچ کردی گئی، حالانکہ جج دیشپانڈے یکم مارچ کوعدالت میں موجود تھے۔ سرکاری وکیل کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے توملزمین کےتعلق سےثبوت پیش کئے ہیں ، آپ لوگ بھی پیش کیجئے ۔ اس پر دفاعی وکلاء نے کہا کہ ہم تو ثبوت پیش کریں گے مگرپولیس کی جانب سے دکانداروںسے کہا گیا ہے کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر سی سی ٹی وی فوٹیج کسی کونہ دیں۔ان تفصیلات سے ایڈوکیٹ شہودانور نےآگاہ کرایا۔
مقامی ذمہ داران کے مطابق پولیس کی جانب سے مثبت یقین دہانی کرائی گئی تھی اور دونوں جانب سے کارروائی کا یقین دلایا گیا تھا لیکن جو کچھ ہوااس سے پولیس کی کھلی جانبداری ظاہر ہوتی ہے ۔
یہ تفصیلات کیس کی پیروی کرنےو الوں میں شامل ایڈوکیٹ شہود انور نے نمائندۂ انقلاب کو بتائیں۔انہوںنےیہ بھی بتایاکہ عدالت کی جانب سے حکم دیئےجانے کے بعددفاعی وکلاء محمد رضوان اورمتین نے کورٹ کے اسٹاف سے کہاکہ آرڈر کی کاپی انہیںدے دی جائے تاکہ وہ قبل ازوقت تھانے سینٹرل جیل انتظامیہ کوپہنچادیں ،مگر انہیںجواب دیا گیا کہ یہ کافی اہم آرڈر ہے اور وہ خود جیل انتظامیہ کو پہنچائیںجس کانتیجہ تاخیر کی صورت میںسامنے آیا اور2طلبہ 12ویں جماعت کا امتحان دینے سے محروم ہوگئے ۔ اس لاپروائی کے سبب ان دونوں نوجوانوں کا ایک سال بلاوجہ برباد ہو گیا اور وہ کافی بددل بھی ہوگئے ہیں۔ ان کے والدین انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔