منی پور کا وہ شرمناک واقعہ جس نے دنیا بھر کو شرمسار کر دیا مگر بی جے پی حکومت کو شرمندہ نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از: ظفر آغا
منی پور جلتا رہا اور حکومت ہند خواب غفلت میں ڈوبی رہی۔ تقریباً پچھلے دو ماہ سے خانہ جنگی کا شکار یہ صوبہ ظلم و ستم کا شکار ہے۔ ستم یہ ہے کہ جب وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ مانگا گیا تو انھوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ اور تو اور مرکز کی جانب سے کسی نے ان کے بیان پر اُف تک نہ کی۔ خود وزیر اعظم بھی اس مسئلہ پر خاموش رہے۔ جب بیرونی دورے سے لوٹے تو ایک آل پارٹی میٹنگ کی رسم ادائیگی ہو گئی۔ قیامت تو تب ہوئی جب صوبہ میں منی پوری عورتوں کو برہنہ کیا گیا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر چلتی رہی۔ آخر حزب اختلاف نے پارلیمنٹ میں ہنگامہ بپا کیا تو وزیر اعظم بول پڑے کہ کسی کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس ہنگامہ کے بعد کل 6 لوگ گرفتار ہوئے۔ اس مضمون کے لکھے جاتے وقت تک منی پور حکومت برطرف بھی نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس کے آثار نظر آ رہے تھے۔ لب و لباب یہ کہ منی پور کا وہ شرمناک واقعہ جس نے دنیا بھر کو شرمسار کر دیا وہ بھی بی جے پی حکومت کو شرمندہ نہیں کر سکا!
سیاسی اور سماجی حلقوں میں حیرت اس بات پر ہے کہ آخر منی پور کے انسانیت سوز واقعہ سے بھی بی جے پی کیوں شرمندہ نہیں ہے! مشکل یہ ہے کہ وہ حضرات جو بی جے پی کی منی پور پر بے حیائی پر حیرت زدہ نہیں ہیں، وہ ابھی تک بی جے پی کا اصل رنگ و روپ نہیں سمجھتے ہیں۔ ارے بی جے پی کی حقیقت سمجھنی ہے تو سنہ 2002 کا گجرات سمجھیے۔ یہ وہی بی جے پی ہے جس کے زیر نگرانی سنہ 1992 میں ایودھیا کی بابری مسجد گرائی گئی اور اس کا جشن سارے ملک میں فسادات کے ذریعہ منایا گیا۔ کیا عصمت دری بی جے پی کے لیے کوئی شرمناک واقعہ ہے؟ آپ شاید گجرات کی بلقیس بانو بھول گئے۔ کمال تو یہ ہے کہ بلقیس بانو کیس کے گیارہ زانی قیدیوں کی گجرات کی بی جے پی حکومت نے سزا بھی معاف کر دی۔ یہ ہے بی جے پی کا اصل رنگ و روپ۔ بھلا اس بی جے پی کو منی پور کے واقعہ پر کیا شرمندگی ہوگی! اور یاد دلا دوں سنہ 1992 کا ایودھیا، جس وقت بابری مسجد ڈھائی جا رہی تھی، اس وقت بی جے پی لیڈران بھجن کیرتن کر رہے تھے، اور تو اور جب بابری مسجد گر گئی تو اوما بھارتی نے مرلی منوہر جوشی کو خوشی سے گلے لگا لیا اور بس، پھر سارے ملک میں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ بھی یاد دلا دوں کہ ان فسادات میں بھی عصمت دری کے واقعات پیش آئے تھے۔
آر ایس ایس کی پروردہ بی جے پی کا ڈی این ہی نفرت ہے۔ جس تنظیم کی سرشت میں ہی نفرت ہو، بھلا اس تنظیم کو مار کاٹ یا عصمت دری جیسے واقعات پر شرمندگی کیسی! حقیقت تو یہی ہے کہ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر بی جے پی، بی جے پی کہاں! ایودھیا نے بی جے پی کو شمالی و مغربی ہندوستان میں وسعت دی۔ گجرات نے بی جے پی کو قومی پارٹی بنا دیا۔ کیا سنہ 2002 کی گجرات نسل کشی سے قبل نریندر مودی کی بی جے پی سیاسی حلقوں کے سوائے کہیں اور کوئی پہچان تھی!
یہ تو بی جے پی کا ماضی ہے جس نے نفرت کی بنیاد پر بی جے پی کو قومی تنظیم کا روپ دے دیا۔ سنہ 2014 سے جب سے بی جے پی سارے ہندوستان کی مرکزی حکومت کی مالک ہے، تب سے آج تک ان دس برسوں میں قاری کو بی جے پی کا حال یاد دلانے کی ضرورت نہیں۔ بھلا کون اخلاق کی ماب لنچنگ بھول سکتا ہے! ایسے ہی ہریانہ و راجستھان میں بے گناہ نوجوانوں کو گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا۔ اتر پردیش میں ہاتھرس کی دلت نوجوان لڑکی کا قتل یا پھر لکھنؤ کے نزدیک کسانوں کی ٹریکٹر سے کچل کر مارے جانے کا واقعہ! ارے ٹی وی اسکرین پر وہ حجاب پہنے ہوئے کرناٹک کی نوجوان لڑکیوں کا خوف سے اِدھر اُدھر بھاگنا! یہ تو محض چند جھلکیاں ہیں بی جے پی حکومت کی نفرت انگیز واقعات کی! نہ جانے کتنے شرجیل امام جیسے اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس ملک میں تیستا سیتلواڑ جیسی انصاف پسند سماجی کارکن کے لیے بھی انصاف نہیں۔ آخر کس کس بات پر روئیے! مقصد محض یہ ہے کہ سنگھ کے ہندوتوا نظریہ کی پروردہ بی جے پی حکومت کے لیے منی پور باعث شرمندگی نہیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے روئیے زار زار کیوں، کیجیے ہائے ہائے کیوں!