کاروارمیں بین الاقوامی یومِ انسداد خودکشی پر خصوصی پروگرام : ہرسال 7لاکھ خودکشی کے معاملات : انسدا د میں میڈیکل طلبا کا اہم رول؛ مہمانان کے تاثرات
کاروار: 7؍ستمبر(ایس اؤ نیوز) ذہن صحیح ہوتو سوچ و خیال بھی صحیح ہوتےہیں، ڈاکٹرس کا پیشہ مسلسل مطالعہ ،تحقیق چاہتاہے۔ خود کشی کو روکنے کے لئے نئے نئے زوائیے تلاش کرنے کی ضرورت ہے، ان خیالات کا اظہار ضلعی عدالت کے منصف اور ضلع قانونی خدمات بورڈ کے صدر سی راج شیکھر نے کیا۔ وہ یہاں ضلع انتظامیہ ، ضلع پنچایت ، ضلع محکمہ صحت عامہ اور خاندانی فلاح وبہبودی ،کاروار میڈیکل سائنس سنٹر ، ضلع قانونی خدمات بورڈ ، محکمہ پولس، محکمہ تعلیمات عامہ ، ضلع ذہنی صحت عامہ کاروار کے اشتراک سے بین الاقوامی یومِ انسداد خودکشی کے موقع پر 10ستمبر سے قبل منعقدہ پروگرام کا افتتاح کرنے کے بعد خطاب کررہے تھے۔ موصوف منصف نے کہا کہ خودکشی کا رجحان زیادہ تر طلبا میں دیکھاجارہاہے، اس سلسلے میں ڈاکٹروں اور نفسیاتی ماہرین تحقیق و تلاش میں ہیں، اور خود کشی کو روکنے میں انہی کا بہت بڑا کرداررہا ہے۔
سنئیر سیول منصف اور ضلع قانونی خدمات بورڈ کے سکریٹری ایس سنتوش کمار شٹی نے اس موقع پر بتایا کہ انسانی زندگی یوں مفت میں نہیں ملتی ، جو زندگی ہمیں ملی ہے اس کو خود ہم برباد نہ کریں، آگے کہا کہ حالیہ دنوں میں مسائل کاسامنے کرنے کی قوت نہ ہونے سے خود کشی کرنےوالوں کی تعداد میں اضافہ دیکھاجارہاہے۔ ان حالات میں میڈیکل سائنس کے طلبا کو چاہئے کہ وہ سماجی صحت کےلئے کام کریں۔انہوں نے یوگا، مراقبہ اور نیک تہذیب کو اپناتے ہوئے خود کشی کی ذہنیت سے چھٹکارا دلانے کی طرف توجہ دلائی۔
سنتوش کمار شٹی نے کہاکہ ہرسال عالمی سطح پر 7لاکھ خود کشی کےمعاملات پیش آتے ہیں، جب کہ خودکشی کے لئے کوئی واضح وجہ کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے۔ 15سے 29سال کی عمر والوں کے درمیان زیادہ واقعات ہورہےہیں، خودکشی وراثتی ہونے کا خدشہ ہے، اس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
پروگرام میں خودکشی کو روکنےوالے پمفلٹ تقسیم کئےگئے۔ میڈیکل سائنس کے طلبا نے خودکشی پر ناٹک پیش کیا۔ اور اسی موقع پرانسدادِ خودکشی کے عنوان سے منعقدہ مضمون نویسی میں شریک ہونےو الوں کے درمیان انعامات تقسیم کئے گئے ۔ پروگرام میں محکمہ خاندانی فلاح وبہبودی کے افسر شرد نایک، کاروار کریمس کے سی ای اؤ اپیشکا پور، کاروارمیڈیکل سائنس سنٹر کے ڈائرکٹر ڈاکٹر گجانن نائک، ڈی وائی ایس پی اروند کلبجی، آر ایم اؤ ڈاکٹر وینکٹیش ، سرکاری عملہ، میڈیکل کالج کے طلبا اور پولس اہلکار وغیرہ شریک تھے۔